Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

بچوں کا ادب : بچے کھلتی کلیاں اور انمول موتی

بچے کھلتی کلیاں اور انمول موتی ہیں، جن کے رنگ، مہک، چمک اور نو سے کسی قوم میں زندگی کی لہر دوڑتی ہے اور ملک کی تاریخ لکھی جاتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں بچوں کو انمول آئینہ مانا جاتا ہے جس میں ایک اچھے شہری کا عکس جھلکتا ہے۔ انہیں ملک و قوم کی ترقی و تعمیر کی بنیاد کا پتھر مانا جاتا ہے۔ یہاں قدیم زمانے سے بچوں کے تئیں محبت اور ہمدردی کے جذبات رہے ہیں۔ جدید دور میں نئی تعلیم نے بچوں کی عزت اور اہمیت کو قبول کرنا بھی سکھا دیا ہے۔ بچوں کے لیے کتابیں لکھنا ایک چیلنج ہے، ایک نازک فن ہے۔ عموماً سبھی بچوں میں بے خوفی، تفریحات سے دل چسپی، ہم دردی اور حوصلے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ 

بچوں کی شخصیت میں ان جذبات کوعلم کی کتابوں کے توسط سے ابھارا جا سکتا ہے۔ اردو میں بچوں کے اس قسم کے ادب کی روایت قدیم زمانے سے ہی ملتی ہے۔ جس میں نظیر اکبر آبادی کا نام سب سے اول ہے۔ نظیر اکبر آبادی 1740ء میں پیدا ہوئے اور 1830 ء میں وفات پائی۔ یہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے۔ عربی اور ہندی زبان بھی بہت اچھی جانتے تھے۔ نظامی پریس بدایوں سے ان کی چھ نظموں کا مجموعہ ’’تِل کے لڈو‘‘ کے عنوان سے چھپا تھا۔ ان کے بعد اردو میں کچھ مدت تک بچوں کے لیے اشعار نہیں لکھے گئے۔ 1874ء میں مولانا محمد حسین آزاد اور خواجہ الطاف حسین حالی کی کوششوں سے دوبارہ بچوں کے لیے شاعری کا آغاز ہوا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسی زمانے میں بچوں کی شاعری کی اصل بنیاد پڑی۔

محمد حسین آزاد کی نظمیں ’’شبِ قدر، حبِ وطن، ابرِ کرم اور صبحِ امید‘‘ مشاعروں کے لیے لکھی گئی تھیں۔ خواجہ حالی کی نظمیں ’’برسات، امید، رحم، انصاف اور حب وطن‘‘ بھی پنجاب کے مشاعروں میں پڑھی گئی تھیں۔ حقیقتاً بچوں کا ادب مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے پیش کیا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی بچوں کا ادب تخلیق کرنے میں گزار دی۔ انہوں نے بچوں کے لیے درسی کتابیں لکھنے کی ابتدا کی جو بہت کارآمد ثابت ہوئیں۔ انہوں نے نظمیں، کہانیاں اور مضامین سبھی قسم کا ادب تخلیق کیا۔ یہاں ایک مثال پیش ہے: 

تھوڑا تھوڑا، ہو جاتا ہے

 بنایا چڑیوں نے جو گھونسلا

 سو ایک ایک تنکا اکٹھا کیا

 درختوں کے جھنڈ اور جنگل گھنے

 یہی پتے پتے سے مل کر بنے

 لگا دانے دانے سے غلے کا ڈھیر

 پڑا لمحے لمحے سے برسوں کا پھیر

 اگر تھوڑا تھوڑا کریں صبح و شام

 بڑے سے بڑا کام بھی ہو تمام 

’’ریل گاڑی، نہر پر چل رہی ہے پن چکی، اور گائے‘‘ ان کی مشہور، دل کش اور مفید نظمیں ہیں۔ گائے پر ان کی نظم بڑی خوب صورت ہے۔ اس کے 18 بند ہیں۔ اس نظم سے ایک مثال دیکھیے: 

رب کا شکر ادا کر بھائی

 جس نے ہماری گائے بنائی

 گائے کو دی کیا اچھی صورت

 خوبی کی ہے گویا مورت 

دانہ دنکا، بھوسی چوکر

 کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر

 بچوں کے ادب کی کئی پیڑھیوں تک مولانا میرٹھی کا اثر پڑا ہے۔ بچوں کے اردو ادب میں ان کا اہم مقام ہے۔ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے بچوں کے لیے نظمیں لکھی ہیں۔ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، یہ ان کی سب سے مقبول نظموں میں سے ہے۔ اس کے علاوہ جگنو، ہمالیہ، نیا شوالہ، بہت خوب صورت اور متاثر کن نظمیں ہیں۔ حفیظ جالندھری 1900ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچوں کے لیے کئی گیت، نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی دو کتابیں، ’’بہار پھول‘‘ اور ’’پھول مالا‘‘ بہت خوب صورت اور مشہور ہیں۔ ان کی نظم ’’کبڈی‘‘ سے ایک مثال ملاحظہ کیجیے۔ اگر کھیل میں سانس ٹوٹا کسی کا پھر اس پر اگر ہاتھ چھوٹا کسی کا تو سمجھو کہ اب کھیل سے کٹ گیا وہ الگ جا کے بیٹھا پرے ہٹ گیا وہ اٹھا کہہ کے پھر دوسرا چل کبڈی چلا چل کبڈی، چلا چل کبڈی.

ڈاکٹر سیفی پریمی


 

Post a Comment

0 Comments