Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

روسو کے آخری ایام

روسو کی زندگی کے آخری سال تھے اور ان دنوں غربت نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھی۔ یہ مفلسی کسی حد تک خود اختیاری بھی تھی۔ انگلستان کے بادشاہ جارج سوم نے اس کے لیے جو وظیفہ مقرر کیا تھا، وہ اس نے بس ایک سال ہی وصول کیا۔ خدا ہی جانتا ہے کہ وہ اس مالی سہولت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتا تھا۔ خیر، وظیفہ کی رقم جمع ہوتی رہی۔ جب وہ چھ سات ہزار فرانک کے لگ بھگ ہو گئی ہو تو اس کے حالات سے متاثر ہو کر ایک دوست نے رقم کی ادائیگی کے لیے رقم کا ڈرافٹ جاری کر دیا۔ روسو کو جب صورت حال کا علم ہوا تو وہ دوست سے بگڑا اور اپنے معاملات میں دخل دینے سے روکا۔ اس نے رقم کا ڈرافٹ بھی ضائع کر دیا۔ 

اس موقع پر بعض دوسرے دوستوں نے بھی اس کو وظیفہ کی رقم وصول کر لینے کا مشورہ دیا، مگر وہ نہ مانا۔ 1777 کے زمانے میں غربت رنگ دکھانے لگی۔ روسو کی صحت بگڑ چکی تھی اور وہ کام کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ تریزے کی جسمانی توانائیاں بھی پہلے سی نہ رہی تھیں۔ وہ اچھی طرح گھر کی دیکھ بھال نہ کر سکتی تھی۔ علاوہ ازیں دونوں کے تعلقات بھی زیادہ خوش گوار نہ تھے۔ انہی دنوں بہت سے لوگوں کو روسو نے اس مضمون کا خط بھیجا کہ وہ اور اس کی اہلیہ ناگفتہ بہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور اب دونوں کے لیے کسی محتاج خانے میں پناہ لینے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ اس نے دوستوں اور واقف کاروں سے التجا کی کہ اس کو اور تریزے کو کسی غریب خانے میں جگہ دلوا دی جائے جہاں وہ زندگی کے باقی دن گزار سکیں۔ 

عجیب بات یہ ہے کہ اس خط کے بعد کئی لوگوں نے روسو کی مدد کرنی چاہی وہ مگر انکار کرتا رہا۔ آخرکار مارکوئس دی گراردن نے اس کو پیرس سے تقریباً بیس میل دور ارمنو ویل کے قصبے میں رہنے پر آمادہ کر لیا۔ بیس مئی 1778 کو روسو وہاں منتقل ہو گیا۔ قدرتی ماحول میسر آنے پر قصبے میں اس کا جی لگ گیا۔ لہٰذا اس کی ذہنی کیفیت قدرے بہتر ہونے لگی۔ لوگ وہاں اس کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ دوسری طرف پیرس کے لوگوں نے جانا کہ روسو نے مدد کے لیے جو خطوط لکھے وہ محض بہانہ تھا۔ اصل میں وہ دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتا تھا اور شاید اس کی خواہش یہ بھی تھی کہ لوگ اس کی تکالیف کا احساس کریں۔ 

اگر کوئی شخص اس کے خط پر عمل کرنا اور اس کو تریزے سمیت اٹھا کر کسی محتاج خانے میں ڈال آتا تو ہو سکتا ہے کہ روسو اس کا ممنون ہونے کی بجائے بس یہی سمجھتا کہ طویل عرصے سے وہ اپنے خلاف ہونے والی جن سازشوں کے خوف میں مبتلا تھا، وہ مکمل ہو گئی ہیں۔ بہرحال زندگی کے آخری دن آ گئے، مگر ہمارے پاس ان دنوں کی تفصیلات موجود نہیں۔ ان پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ یہ البتہ معلوم ہے کہ تریزے کی حالت بگڑ چکی تھی۔ اس کا رویہ ٹھیک نہ رہا تھا۔ قصبے میں آنے کے چند روز بعد روسو کے وہم شدید ہونے لگے تھے۔ وہ محسوس کرتا تھا کہ اس کو قید خانے میں ڈال دیا گیا ہے اور یہ کہ اس کے بچ نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں رہی۔

دو جولائی 1778 کو اچانک ہی یہ سب کچھ ختم ہو گیا۔ ہمارا فلسفی زندگی کی بازی ہار گیا۔ موت کا سبب کیا تھا ؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ موت دماغ میں خون کی شریان پھٹ جانے کے باعث ہوئی۔ وہ سیر کے بعد لوٹا تو طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ اس نے سر میں درد کی شکایت کی اور اچانک ہی ڈھیر ہو گیا۔ اچانک واقع ہونے والی اموات عموماً افواہوں کا باعث بنتی ہیں کئی لوگوں نے روسو کی اچانک موت سے کئی افسانے گھڑ لیے۔ انہوں نے مشہور کر دیا کہ روسو نے خودکشی کی ہے۔ اس بات کو سب سے زیادہ مادام سیٹل نے پھیلایا۔ اس نیک بخت نے روسو پر ایک پھرتیلا مضمون لکھا اور اس کی ذہانت و فطانت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے، مگر موت کا سبب اس نے خودکشی کو ٹھہرایا۔ ہم قیاس کر سکتے ہیں کہ روسو میں خودکشی کا میلان پیدا ہو رہا تھا لیکن اس قیاس کو یقین میں تبدیل کرنا محال ہے۔ البتہ خود کشی کے خلاف واضح شہادت پانچ ڈاکٹروں کے سرٹیفکیٹ کی صورت میں موجود ہے جس میں انہوں نے دماغ کی شریان پھٹنے کو موت کا سبب قرار دیا۔

قاضی جاوید


 

Post a Comment

0 Comments