Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ہماری بے مکانی دیکھتے جاؤ

پرسوں میں نے کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی سنچری اور اپنی زندگی کی نصف سنچری ایک ساتھ مکمل کر لی تو سوچا کہ کیوں نہ اس مبارک و مسعود موقع کو سیلبریٹ کیا جائے۔ یہ اعزاز کسے ملتا ہے کہ سواں مکان شروع اور زندگی کا پچاسواں سال ختم ہو۔ یہ حسن اتفاق نہیں، عشق اتفاق ہے۔ میں خوشی خوشی گھر پہنچا تو بیوی کو افسردہ و رنجیدہ پایا۔ میں نے کہا: ’’بہت اداس دکھائی دیتی ہو۔ کیا نیا مکان تمہیں پسند نہیں آیا۔‘‘ بولی ’’تمہاری رفاقت میں آج تک میں نے اَن گنت مکان بدلے۔ کبھی کسی مکان کے بارے میں شکایت کی؟‘‘ میں نے کہا ’’سچ تو یہ ہے کہ مجھے تم سے ہی یہ شکایت ہے کہ اتنے مکان بدلنے کے باوجود تم نے میرا ساتھ اور ہاتھ نہیں چھوڑا۔‘‘ بولی ’’اگر میں مکانوں کے بدلنے میں ہنسی خوشی تمہارا ساتھ نہ دیتی تو تم مکان بدلنے کی بجائے بیویاں بدلتے اور اس کوشش میں ایک نہ ایک دن کہیں گھر داماد لگ جاتے۔‘‘ 

میں نے کیا ’’بات کیا ہے؟ تم نہ صرف اداس نظر آتی ہو بلکہ لڑائی کے موڈ میں بھی ہو۔‘‘ بولی ’’ایک بری خبر ہے، خدا کرے کہ جھوٹی ہو، ابھی ابھی تمہارے بھتیجے نے آکر یہ اطلاع دی ہے کہ 25 سال پہلے تم جس ہاؤسنگ سوسائٹی کے ممبر بنے اس نے بالآخر مکان بنا لیے ہیں یہ کہ تمہیں اب اپنا مکان ملنے ہی والا ہے۔‘‘ اس اطلاع کو سن کر میں بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔ پیروں تلے سے مکان سمیت زمین نکلنے لگی۔ میں نے سوچا، ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ میں اور اپنا ذاتی مکان! زندگی کے 50 برس بیت چکے ہیں اب میں اپنا مکان لے کر کیا کروں گا۔

میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بیوی نے کہا ’’کسی سوچ میں پڑ گئے، بتاؤ اب کیا ہو گا؟‘‘ میں نے بیوی پر قابو پانے کی خاطر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا ’’ہونا کیا ہے، اگر ذاتی مکان ملتا ہے تو اس میں چلے جاتے ہیں۔ لوگ تو ذاتی مکان کے لیے ترستے ہیں۔ یہ اداس ہونے کی نہیں خوش کی بات ہے۔‘‘ بولی ’’مگر میرے لیے یہ خوشی کی بات نہیں ہے۔ کرایہ کے مکان میں ازدواجی زندگی کا جو لطف ہے وہ ذاتی مکان میں کہاں۔ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تھی کہ تمہارا اپنا کوئی ذاتی مکان نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ جس دن تمہیں اپنا مکان مل جائے گا تم اپنی ساری توجہ مجھے بنانے سنوارنے کی بجائے مکان کو بنانے سجانے میں صرف کر دو گے۔ میں اپنے اور تمہارے بیچ کسی مکان کو حائل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتی۔ پھر ہماری خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز یہی ہے کہ تمہارا زیادہ وقت مکانوں کے مالکوں سے لڑنے یا انہیں خوش کرنے میں گزرتا ہے۔ 

مجھ سے لڑنے کی تمہیں مہلت ہی نہیں ملتی۔ جس دن مالک مکان ہم دونوں کے بیچ سے نکل جائے گا، ہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو جائیں گے۔ یہ ایک جنگی حکمت عملی ہے جس کے باعث ہمارے گھر میں دائمی اور پائیدار امن قائم ہے۔ میں گھریلو اور عالمی امن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دے سکتی ہوں۔ چاہے مجھے ذاتی مکان سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونا پڑے۔‘‘ زندگی میں پہلی بار میں اپنی بیوی کی فہم و فراست کا قائل ہو گیا۔ میں نے کہا ’’میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اب کرایہ کے مکانوں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جس آدمی نے فی برس دو مکانوں کے حساب سے اپنی جائے رہائش تبدیل کی ہو، اس کی خانہ بدوشی کو کم از کم تمہیں تو تسلیم کر لینا چاہیے۔

اپنی تو ساری زندگی اس طرح گزری کہ ایک پاؤں ایک مکان میں ہے اور دوسرا پاؤں دوسرے مکان میں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں مکانوں کو بدلتے بدلتے مکاں سے لامکاں تک پھیل گیا ہوں۔ میں مکان میں ہوں بھی اور نہیں بھی۔ میں مکان کے اندر ہوں اور مکان میرے اندر ہے۔ کرایہ کے مکانوں کی برکتوں سے جتنا میں واقف ہوں، شاید کوئی اور ہو، بلکہ آج میں جو کچھ ہوں وہ کرایہ کے مکانوں میں رہنے کی وجہ سے ہوں۔ تمہیں یاد ہو گا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک مکان کرایہ پر لیا تھا۔ مالک مکان نے تین چار مہینوں تک ہمیں ہنی مون منانے کی اجازت دے دی۔ پانچویں مہینے سے اس نے کرایہ کی ادائیگی کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس سے منہ چھپاتا پھرا۔ ایک دن آمنا سامنا ہوا تو اس نے پوچھا ’’آخر تم کرایہ کیوں ادا نہیں کرتے؟‘‘ میں نے کہا ’’اس لیے کہ بے روزگار ہوں۔ کہیں نوکری لگے تو کرایہ بھی ادا کروں۔‘‘ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ مالک مکان کئی دنوں تک میری ملازمت کی خاطر جوتیاں چٹخاتا پھرا۔ جگہ جگہ میری درخواستیں دیں۔ بالآخر اس نے مجھے نوکری سے لگا دیا۔ تنخواہ سے سارا کرایہ وصول کیا اور اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔

مجتبیٰ حسین


 

Post a Comment

0 Comments