Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ماں قابل عبادت ہے‘ ترکمانی صدر کی نئی کتاب مقبول

ہر مذہب اور معاشرت میں ماں کا احترام کیا جاتا ہے اور کرنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ وسطی ایشیائی ریاست ترکمانستان کے صدر نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ سابقہ سوویت یونین کی جمہوریہ اور وسطی ایشیا کی خود مختار ریاست ترکمانستان کے منصبِ صدارت پر تقریباً گیارہ برس سے قربان قلی بردی محمدوف براجمان ہیں۔ وہ تیس کے قریب کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ اُن کی زیادہ تر کتب شاعری پر مبنی ہیں۔ وہ دانتوں کے ماہر ڈاکٹر ہیں اور اس شعبے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔

ترکمانستان کی صدارت سنبھالنے کے بعد سے اُن کی کتابیں تواتر سے شائع ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کتابیں لکھنے کے شوق میں سات جلدوں پر مبنی ایک انسائیکلوپیڈیا بھی مرتب کیا ہے۔ اس انسائیکلوپیڈیا میں ترکمانستان میں پائے جانے والے ایسے پودوں کے خواص بیان کیے ہیں، جو علاج معالجے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اُن کی تازہ تصنیف ماں کے بارے میں ہے اور یہ انہوں نے اپنی والدہ کے نام معنون کی ہے۔ اس کتاب کا عنوان ’ماں کی عبادت: ایک مقدس شے کی عبادت‘ رکھا گیا ہے۔ ترکمانی میڈیا کے مطابق موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب ملکی معاشرت میں بہت مقبول ہو گی کیونکہ اس معاشرے میں ماں کو مرکزیت حاصل ہے۔

اس کتاب میں ترکمانی صدر نے سوویت یونین دور میں وسطی ایشیائی معاشرت میں ماؤں کی جد وجہد پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ قربان قلی بردی محمدوف کی والدہ کا نام اوغولت بردی محمدوف تھا۔ وہ سن 1937 میں پیدا ہوئی تھیں اور انہوں نے کمیونسٹ دور میں چھ بچوں کی مشکل حالات میں پرورش کی تھی ۔  قربان قلی نے کتاب میں واضح کیا کہ ان کی والدہ سخت گیر ضرور تھیں لیکن مساوات اور پرورش میں برابری کے اصول کی قائل تھیں۔ بعض ناقدین کے مطابق بردی محمدوف کی کتاب سابق صدر صفر مراد نیازوف کے اپنی ماں سے محبت کا تسلسل ہے۔ نیازوف بھی خود کو کھلے عام اپنی ’والدہ کا وفادار‘ قرار دیتے تھے۔

صدر قربان قلی بردی محمدوف کی کتاب کی تشہیر اور اُس پر تبصروں کا سلسلہ دارالحکومت عشق آباد (اشک آباد) سمیت دوسرے شہروں کے ذرائع ابلاغ پر جاری ہے۔ یہ کتاب ترکمانی، روسی اور انگریزی میں بیک وقت شائع کی جائے گی اور اس کی قیمت پندرہ ڈالر تجویز کی گئی ہے۔ دارالحکومت عشق آباد کی ایک خاتون ٹیچر گُل نبات یاگمُوروا کا کہنا ہے کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کتاب میں ایک ماں کے بارے میں بہت ساری معلومات ہیں اور یہ عام لوگوں کے لیے مفید ہو سکتی ہیں۔ خاتون ٹیچر نے ایسا خیال ظاہر کیا ہے کہ کتاب کا تعلق ماں کے احترام سے ہے اور یہ اسکولوں کے نصاب میں شامل کی جا سکتی ہے۔

بشکریہ DW اردو
 

Post a Comment

0 Comments