Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

زندگی میں مطالعہ کتب کی اہمیت

قوموں کی تعمیرمیں بنیادی اقدار اہم رول ادا کرتے ہیں۔ قوموں کے عروج وزوال کی بنیاد اس قوم کے لوگوں کے بنیادی اقدار ہی ہوتے ہیں۔ چونکہ علم ہمیشہ عمل کا امام ہوتا ہے، لہٰذا بنیادی اقدار صحیح علم سے ہی آتے ہیں۔ مطالعۂ کتب علم حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہوتا ہے۔ وسیع و دقیق مطالعہ کے بغیر انسان کا ذہن، ادراک کی اس سطح تک رسائی نہیں پا سکتا، جہاں سے وہ مفید و مضراور اعلیٰ و ادنیٰ کے بیچ کا فرق جان سکے۔ مدارس، اسکول، کالج اور یونیورسٹی طالب علم کو علم و دانش کی دہلیز پر لا کھڑا کر دیتے ہیں ، لیکن علم کی طلب کا اصل سفر اس کے بعد سے ہی شروع ہوتا ہے، جو ایک طالب علم کو اپنے شوق اورلگن سے پورا کرنا ہوتا ہے۔ 

انسان کو رب کائنات نے عقل و شعور سے نوازا ہے۔ عقل وشعور کے نشوونما کیلئے مطالعہ کتب سب سے کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ جس طرح غذا صحت کیلئے ناگزیر ہے، اسی طرح روحانی اور فکری ارتقاء کے لئے مطالعہ ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ غذا کے بغیر جیسے جسم لاغر ہو جاتا ہے وہیں مطالعہ کے بغیرعقل و شعور میں جمود اور زوال اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ عقل چاہے کتنی ہی زیرک کیوں نہ ہو، انسان کو مخصوص حالات سے ہی آگاہی بخش سکتی ہے۔ مطالعے کی ہی مدد سے ہم مختلف تہذیبوں اور تمدّنوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کئی ایسے عظیم انسان گزرے ہیں، جنہوں نے اپنی وفات کے بعد بھی صدیوں تک انسانوں کے قلوب و اذہان پر اپنی دھاک بٹھائے رکھی۔ 

مطالعہ کتب کا اس سے بڑا فائدہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمیں ایک مصنف کی سالوں کی انتھک محنت سے فیض یاب ہونے کا موقع مل جاتا ہے، وہ بھی بغیر کسی مشقّت کے۔ آج انسانیت کا سنگین مسئلہ ذہنی انتشار اور عدم سکون ہے جس کی وجہ سے انسان بہت سارے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ ماہر نفسیات کے مطابق اچھی اورمفید کتابوں کا مطالعہ انسان کو ان امراض سے نجات دلاتا ہے۔ اچھی اور مفید کتابوں کے مطالعہ سے ہی انسان کی زندگی میں سکون اور اطمینان جیسی اعلیٰ اور مطلوبہ صفات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہیے۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔ کتابوں کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں اور طالب مطالعہ کے بھی دو درجے ہوتے ہیں ۔ 

ایک وہ درجہ وہ ہوتا ہے جب ایک پڑھنے لکھنے والا آدمی ہر فن سے واجبی سی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب کون سی ہے، اور اسی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس مرحلے سے گزرنے کے بعد اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فن اس کی دلچسپی کاہے یا نہیں۔ اگر اس کی دلچسپی کا ہو تو اسے اس فن کی اعلیٰ کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتا ب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کے لئے کسی متعلقہ استاد سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ایک مذہبی عالم کو نیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کوسمجھ سکے، اسے معیشت، معاشرت، تاریخ، قانون، تہذیب و تمدن، فلسفہ اور نفسیات وغیرہ سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔

 جاپانی قوم نے دنیا کو بہت سی مثبت چیزیں دی ہیں، اس کا راز محنت کے ساتھ ساتھ ان کا کثرت مطالعہ ہے۔ مجتبیٰ حسین اپنے سفرنامہ’’جاپان ۔ ۔ چلو،جاپان‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’جاپانی ٹرین میں سفر کرتے وقت ’’مون برت‘‘ رکھ لیتے ہیں۔ پلیٹ فارم پرکھڑے کھڑے کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ ٹرین آتی ہے تو کتاب میں انگلی رکھ کر ٹرین میں گھس جاتے ہیں اور سیٹ پر بیٹھتے ہی کتاب کھول کر پڑھنے میں لگ جاتے ہیں۔ ہمیں اکثر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم کسی لائبریری میں بیٹھے ہیں اور لائبریری کے نیچے پہیے لگا دیئے گئے ہیں ‘‘۔ ’’سارے ایشیا میں جاپانی سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں، ان کی یہ دھاک دوسری قوموں پر بیٹھی ہوئی ہے۔ اسی حوالے سے ان کے اشاعتی اداروں یعنی علم و ادب کی دھاک بھی دنیا بھرمیں بیٹھی ہوئی ہے، ہم نے محسوس کیا کہ جاپانی یا توپڑھتا ہے یا لکھتا ہے۔

 باتیں بہت کم کرتا ہے۔ جہاں چاہیں لوگ کتابیں خریدنے اورپڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ٹوکیومیں ایک محلہ ’کندا‘کہلاتا ہے جو شہنشاہ جاپان کے محل سے متصل ہے۔ اس میں ہرطرف کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ کتابوں کی اتنی بڑی بڑی دکانیں ہم نے کہیں نہیں دیکھیں‘‘۔ قابل تعجب ہے کہ آج ذرائع ابلاغ جس سْرعت کے ساتھ مطالعے کے مواقع فراہم کر رہا ہے، لوگ اتنا ہی پڑھنے کی طرف کم مائل ہوتے دکھائے پرتے ہیں۔ NOP کے پیش کردہ ایک تجزیہ کے مطابق ایک انسان ہفتے میں اوسطاً 16.6 گھنٹے ٹیلی ویژن کے سامنے گزارتا ہے، آٹھ گھنٹے ریڈیو سنتا ہے، 8، 9 گھنٹے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی نذر کرتا ہے۔ جبکہ جو چیز انسان کی فکری نشوونما میں سب سے کلیدی رول ادا کرتی ہے، یعنی مطالعۂ کتب، اْس کے لئے سب سے کم یعنی 6.5 گھنٹے ہی مختص کر پاتا ہے۔ یہ ساری باتیں اس ضرورت کی متقاضی ہیں کہ مطالعہ کتب کا ذوق بچپن سے ہی بڑھانا چاہیے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ کردار اسکول انتظامیہ اور اساتذہ ادا کر سکتے ہیں۔

اگر اسکولوں میں اچھی لائبریری قائم کرنے کے بعد طلبہ میں کتابوں کے مطالعے کا رواج قائم کیا جائے توبچپن ہی سے ایک بچے کے اندر یہ عادت گھر کر جائے گی۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو نئی نئی کتابیں خریدنے پر اْن کی ستائش کریں۔ مشاہدے میں آیا ہے کسی جگہ اگر بچہ شوق سے کوئی کتاب خرید بھی لیتا ہے، تو والدین کے ڈر سے کتاب اسے چوری چھپے گھر کے اندرلے جانی پڑتی ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ والدین کتابوں کی فروخت پرخرچہ کرنے کو پیسوں کے زیاں سے تعبیر کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ملّت اسلامیہ دوبارہ سے دنیا میں عزت اور عروج حاصل کرنا چاہتی ہے توہمیں چاہیے کہ علم کی اس متاع گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کی فکر کریں۔ کیونکہ علم کے اس زینے سے گزرے بغیر کامیابی کی بلندی تک پہنچنا نہ صرف مشکل بلکہ ایک ناممکن عمل ہے۔

سہیل بشیر


 

Post a Comment

0 Comments