Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

بابل کا امیر ترین آدمی : امریکی بیسٹ سیلر کتاب

’’بابل کا امیر ترین آدمی‘‘ ایک امریکی بیسٹ سیلر کتاب ہے۔ اس کتاب کے مصنف جارج کلیسن ہیں۔ یہ کتاب ایک داستان کی طرز میں لکھی گئی ہے۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک عام مزدور کچھ سادہ اصولوں کو اپناتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ بابل کا امیر ترین شخص بن جاتا ہے۔ اگرچہ یہ کتاب 1926ء کو شائع ہوئی لیکن اس میں شامل اسباق آج بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی لئے تقریباً ایک صدی گزرنے کے بعد بھی اس کی افادیت قائم ہے۔ اس کتاب کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ معاشی آسودگی کا خواب دیکھنے والے کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔آئیے اس کتاب میں شامل اہم اصولوں سے آپ کو روشناس کراتے ہیں۔

غربت سے امارت کا سفر راتوں رات طے نہیں ہو سکتا۔ سوائے اس کے کہ راہ چلتے چلتے آپ کے ہاتھ قارون کے خزانے کی چابی آ جائے۔ آپ کی لاٹری لگ جائے یا تو کوئی ایسی نوکری مل جائے جو آپ کو فوراً مالا مالا کر دے۔ لیکن اگر ایسا کچھ آپ کے ساتھ ہو چکا ہوتا تو آپ کو یہ مضمون پڑھنے کے ضرورت نہ ہوتی۔ اب سوال یہ ہے کہ دولت کی چڑیا کو قید کرنے کا کوئی متبادل و قابل عمل طریقہ ہے بھی یا نہیں؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب ہے ، دولت کیسے ملے گی۔! پہلے اپنے آپ کو معاوضہ دیں۔ 

اگر آپ امیر ہونا چاہتے ہیں تو اس وقت آپ جتنے بھی پیسے کما رہے ہیں۔ ان کا دسواں حصہ نکال کر سب سے پہلے "اپنے آپ کو معاوضہ دیں"۔ باقی ماندہ رقم جیسے چاہے خرچ کریں۔ فرض کیا کہ ایک مزدور ہے۔ وہ نہایت کسمپرسی کی حالت میں ہے۔ دن بھر محنت کرنے کے بعد وہ صرف 500 روپے کما سکا ہے۔ اب اگر وہ اس غربت سے چھٹکارا چاہتا ہے تو اسے لازمی اپنی کمائی سے 50 روپے سب سے پہلے اپنے آپ کو ادا کرنے ہیں۔ باقی 450 روپے سے وہ اپنے دن بھر کے اخراجات چلا سکتا ہے۔ یقینا کچھ لوگ سوال کریں گے کہ آج کی مہنگائی میں ہم ایک مزدور کو جو کہ کما ہی 500 روپے رہا ہے، اور اسے صرف 50 روپے کی بچت کرنے کا کہہ رہے ہیں؟ 

اس کی زندگی پہلے ہی آسان نہیں، ہم اسکو آمدن کے دسویں حصے سے بھی محروم کر رہے ہیں۔ مگر نہیں، یاد رکھیئے کہ اس مزدور نے اپنے اخراجات کی ادائیگی میں 50 کی بچت کرنے کی ذہنیت نہیں اپنانی۔ بلکہ پہلے اس نے اپنی کمائی سے 50 روپے الگ کرنے ہیں۔ پھر باقی بچنے والی رقم کے مطابق اپنا خرچہ چلانا ہے۔ یقینا آپ سوچیں گے کہ یہ کیا بات ہوئی؟ ایک مزدور دن بھر مشقت بھی کر رہا ہے۔ اگر وہ یہ رقم بھی پوری خرچ نہ کرے تو وہ غریب تر ہو جائے گا۔نہیں بھائی، اسی ذہنیت کو ہی تو بدلنا ہے کہ جو کمایا خرچ کیا، مزید کمایا تو خرچ اور بڑھا دیا۔ اگر یہ بے چارہ مزدور اپنی آمدنی سے کچھ بچائے گا نہیں تو جس دن اسکی مزدوری نہ لگی ، اس دن پھر کیا کرے گا؟ یا تو وہ ادھار مانگے گا یا پھر بھوکا سو جائے گا۔

ایک دہاڑی دار مزدور کی بات تو چھوڑیئے، ہمارے ایک چچا ہیں۔ سرکاری ملازم ہیں۔ ہر سال ان کی تنخواہ میں دو اضافے ہوتے ہیں۔ ایک بجٹ کے موقع پر۔ دوسرا ہر عیسوی سال کے آخر میں۔ اس کے باوجود انکا یہ حال ہے کہ ہر ماہ کی آخری تاریخوں میں ادھار مانگ مانگ کر گزارا کرتے ہیں۔ یعنی انکی تنخواہ بڑھی نہیں، خرچے پہلے ہی بڑھ گئے۔ آمدن بڑھنے کے باوجود، ہر مہینے کے آخر میں بٹوا خالی ہی رہ جاتا ہے۔ اس لئے اگر آپنے اپنی مالی حالت بدلنی ہے تو ہر ماہ (یا دن) کے بعد آپ کی جو بھی آمدن ہو خرچ کرنے سے پہلے اس کمائی کا دسواں حصہ باقاعدگی سے الگ کر لیں۔ باقی بچ جانے والی رقم آپ خرچ کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے کچھ عرصے میں آپ کے پاس ایک معقول رقم جمع ہو جائے گی۔

پیسے کو اپنا غلام بنائیں:

اب جو کہ پیسے آپ نے بچا لئے ہیں وہ اس لئے ہر گز نہیں کہ آپ چھٹیوں میں تفریح کرنے چلے جائیں۔ نیا اور مہنگا موبائل فون خریدنے کی حماقت بھی نہ کرنا۔ اس رقم سے آپ نے دولت کے حصول کیلئے اگلا قدم اٹھانا ہے۔ سوچ بچار کے بعد اپنی رقم کو کسی ایسی جگہ لگانا ہے جہاں سے آپکے لئے مزید آمدنی پیدا کرنے کے مواقع پیدا ہو سکیں۔ یعنی ایک مزدور/کسان ان روپوں سے کوئی گائے بکری خرید سکتا ہے۔ ایک ملازم پیشہ شخص ٹیکسی کیلئے گاڑی خرید سکتا ہے۔ 

اور زیادہ نہیں آپ کم از کم ایک فوڈ سٹال ہی لگا سکتے ہیں جو آپکے لئے اضافی آمدنی کا ذریعہ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ طریقے صرف مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں ورنہ تو ہمارے ارد گرد آمدنی پیدا کرنے کے لامحدود مواقع موجود ہوتے ہیں۔بات صرف کچھ " نیا سوچنے" اورپھر "عملی قدم "اٹھانے کی ہے۔ فرض کریں کہ آپ نے یہ دوسرا قدم بھی اٹھا لیا ہے تو پھر آپ نے صارف کی بجائے سرمایہ کار بننے کیلئے اڑان بھر لی ہے۔ اب آپ نے یہ سلسلہ جاری رکھنا ہے۔ معقول بچت جمع ہو جانے کے بعد اس کا کاروبار/سرمایا کاری کرنی ہے۔ ایک دن جب ان دیگر ذرائع سے بھی ایک معقول آمدن ہونے لگے گی تو پھر آپ کو پیسوں کیلئے کام نہیں کرنا پڑے گا بلکہ اب پیسہ آپ کیلئے کا م کرنے لگ جائے گا۔ یہ بات اگر سمجھ آ گئی تو پھر یقینا فوراً تو نہیں مگر بتدریج آپ کے دن ضرور بدلیں گے۔صرف سوچ بدلنے اور عملی قدم اٹھانے کی دیر ہے۔

عبداللہ ارشد


 

Post a Comment

0 Comments