Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اردو کو دفتری زبان بنانے میں تاخیر کیوں ؟

دستور پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دیئے جانے کے بعد اصولی اور قانونی طور پر سرکاری خط و کتابت سمیت تمام وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی دفتری کارروائیوں میں اس زبان کا چلن نظر آنا چاہئے تھا تاہم 8 ستمبر 2015ء کو سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں جب وفاقی وصوبائی حکومتوں کو دفتری خط و کتابت اور تمام محکمانہ امور اردو زبان میں انجام دینے کا حکم دیا تو اس پر فوری عملدرآمد نہ صرف ناگزیر تھا بلکہ اس بنا پر مشکل بھی نہیں تھا کہ برٹش انڈیا میں سرکاری محکموں میں درخواستیں پیش کرنے کے لئے ان کے نمونوں کی تیاری کا کام عام لوگوں کی آسانی کی خاطر عرائض نویسی کی کتابوں کی صورت میں جمع کیا جا چکا تھا۔

مگر آزادی کے 70 برس گزرنے اور عدالت عظمیٰ سے واضح حکم آنے کے باوجود سرکاری محکموں کی خط و کتابت اور نوٹسوں میں تاحال غیر ملکی زبان کا چلن مایوس کن صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قومی زبان اردو کو ہر سطح پر سرکاری زبان بنانے کے عملی اقدامات کے ساتھ صوبائی و علاقائی زبانوں کی ترویج اور ترقی پر بھی توجہ دی جاتی اور اسکولوں کے نصابِ تعلیم میں سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو زبانیں سیکھنے کی گنجائش رکھی جاتی کیونکہ علاقائی زبانوں کا فروغ نہ صرف صوبائی و علاقائی رابطے کیلئے استعمال ہونے والی قومی زبان میں وسعت کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے میں بھی اس سے مدد ملتی ہے۔

اب عدالتی فیصلے کے ڈھائی برس بعد 20 مارچ 2018ء کو وفاقی وزیر تعلیم کی زیرصدارت منعقدہ اجلاس میں اہلکاروں کے لئے اہتمامِ تربیت کی ایک اطلاع سامنے آئی ہے تو اسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھتے ہوئے تمام سرکاری امور میں اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ کی توقعات تازہ ہوئی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان توقعات کے پورا ہونے میں مزید کتنا وقت درکار ہو گا ؟ اردو کو مختلف اداروں محکموں اور عدالتوں سمیت ہر سطح پر سرکاری زبان بنانے سے کئی الجھنیں دور ہوں گی اور عام لوگوں کو اپنی جائیداد کے کاغذات سمیت ضروری نجی و سرکاری دستاویزات سنبھالنے میں مدد ملے گی۔

اداریہ روزنامہ جنگ

Post a Comment

0 Comments