Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

نتیجہ غالب شناسی کا

مرزا غالب جتنے بڑے شاعر تھے اتنے ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی دانش مند اور دور اندیش آدمی تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ان کے وطن میں ان کا کلام سخن فہموں کے ہاتھوں سے نکل کر ہم جیسے طرف داروں کے ہاتھ پڑ جائے گا اس لیے انہوں نے باکمال ہوشیاری سے یہ مشورہ دیا تھا کہ بھائیو! میرا فارسی کلام پڑھو اور اردو کلام سے احتراز کرو کیونکہ اس میں میرا رنگ ہے نہیں۔ لیکن ان سے غلطی یہ ہوئی کہ یہ مشورہ انہوں نے بزبان فارسی دیا اور یہ شعر ان کے اردو دیوان میں شامل نہیں کیا جا سکا۔ ہمارے ہاں غالب شناسی کا رواج کوئی 50 سال پہلے شروع ہوا ہو گا۔

شروع شروع میں یہ بڑا مشکل کام تھا اور صرف پڑھے لکھے لوگ غالب کی طرف متوجہ ہوا کرتے تھے۔ جسے بھی اپنی عمر کے بیشتر حصے کی تباہی اوراپنی صحت کی بربادی مقصود ہوتی وہ غالب کے کلام کی شرح لکھنے کا کام اپنے ذمے لیتا۔ رفتہ رفتہ یہ فن فیشن بن گیا اور پھراس فن نے مرض کی صورت اختیار کر لی۔ غالب صدی میں تو ہر شخص غالب کے اشعار گنگنانے لگا۔ بے روزگار نوجوان اپنی ملازمت کی درخواستوں میں یہ لکھنے لگے کہ وہ کبڈی اور کیرم کے علاوہ غالب بھی جانتے ہیں۔ معزز لوگوں نے محفلوں میں اعلان کرنا شروع کیا کہ ان کی ہابی غالب ہیں اور ایک اونچے درجے کے کلب کی صدارت کے امید وار کے حق میں یہ کہہ کر ووٹ حاصل کیے گئے کہ موصوف گولف اور غالب دونوں کے ماہر ہیں۔ 

کہا جاتا ہے ایک زمانے میں ایسا کڑا وقت فرانس پر بھی آیا تھا جب ہر شخص کو پکا سوکی (اصلی یا جعلی) پینٹنگ اپنے دیوان خانے میں لٹکانی پڑی تھی اورآرٹ کی دلدادہ خواتین میں سے چند نے اپنے شوہروں سے صرف اس لیے طلاق حاصل کر لی تھی کہ ان کے شوہر پکا سو کے فن پر بحث نہیں کر سکتے تھے۔ (حالانکہ یہ بحث صرف دو منٹ کی ہوتی تھی)۔ غنیمت ہے کہ ہمارے ہاں غالب نے لوگوں کی ازدواجی زندگی میں کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔ وہ صرف مردانے میں رہے۔ ممکن ہے کہ اس کی یہ وجہ بھی رہی ہو کہ ہمارے ہاں خواتین کا ذوق ابھی اتنا بگڑا نہیں ہے کہ وہ غالب پر بات چیت کر کے زیور، لباس اور غیر حاضر خواتین کے عیوب جیسے اہم مسائل کو نظرانداز کر دیں۔ 

ذوق کے لفظ پر یاد آیا کہ ذوق بھی غالب ہی کے عہد میں شاعری کرتے تھے اور دربار شاہی سے خِلعَت کے علاوہ انھیں ہاتھی بھی انعام میں ملا کرتے تھے۔ اس زمانے میں ہاتھی ہی سب سے زیادہ معزز سواری تھی۔ اس میں شک نہیں کہ نادر شاہ جب ہندوستان آئے تو انھیں یہ سواری پسند نہیں آئی لیکن نادر شاہ بذات خود عامیانہ ذوق کے آدمی تھے ان میں بلند خیالی کا فقدان تھا اس لیے ہر معاملے میں اور خاص طور پر ہاتھی جیسی معتبراورمنفرد شخصیت کے بارے میں ان کی رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ شاعری کا صحیح زمانہ واقعی وہی زمانہ تھا۔ ایک قصیدہ کہو ہاتھی لے لو، ایک غزل کہو دو چار گھوڑے لکھوا لو۔۔۔ 

غالب بہت مقبول شاعر ہیں اوران کے کتنے ہی مصرعے لوگوں کو ازبر ہیں۔ بہتوں کو تو پورے پورے شعر بھی یاد ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دوسرے مصرعے کو پہلے مصرعے سے پہلے پڑھتے ہیں۔ لیکن اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کیونکہ شاعری کوئی کرکٹ کا کھیل نہیں ہے کہ دوسری اننگ پہلی اننگ کے بعد ہی کھیلی جائے۔ یوں بھی غالب مصرعوں میں زیادہ پسند کیے جانے کے لائق شاعر ہیں۔ انہوں نے دس بیس مصرعے تو اس غضب کے کہے ہیں کہ ہر ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اگر وہ صرف مصرعے ہی کہتے، تب بھی اتنے ہی بڑے شاعر ہوتے جتنے کہ وہ مکمل شعر کہنے کی وجہ سے ہیں۔ ان کی شاعری کا یہ پہلو غالب صدی کے دوران ہم سب کے سامنے آیا۔ 

جشن غالب کے سلسلے میں جتنے بھی جلسے ہوئے ان سب جلسوں کے اناؤنسر غالب کے مصرعوں سے پوری طرح لیس تھے جو بھی جلسہ یا مشاعرہ ہوا اس مصرعے سے شروع ہوا۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا صدر جلسہ کے تعارف کے سلسلے میں کہا گیا وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے پتا نہیں اس مصرعے سے اناؤنسر صاحب کی کیا مراد تھی۔ ممکن ہے وہ صدر جلسہ کو خدا کی قدرت کا نمونہ کہنا چاہ رہے ہوں۔ مہمان خصوصی کی تعریف کے پل کے لیے اس مصرعے کو سنگ بنیاد قراردیا گیا۔ کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے ان جلسوں میں مہمان خصوصی کا انتخاب عموماً طبقہ اناث ہی سے کیا جاتا تھا اورغالب کے کئی مصرعے ان پر صرف کیے جاتے تھے۔

غالب صدی کی وجہ سے کچھ دل دوز واقعات بھی ہوئے۔ کچھ لوگ غالب کی محبت میں اتنے آگے نکل گئے کہ واپس آنے کا راستہ بھول گئے۔ ایک صاحب نے انہی دنوں اپنا سر نیم غالبی مقرر کر لیا اور وہ مرزا احمد اللہ بیگ غالبی کہلانے لگے۔ (کچھ لوگ تو انھیں غالباً بھی کہتے تھے) اس سال انہوں نے باضابطہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ کوئی کام غالب کے دیوان سے مدد لیے بغیر نہیں کریں گے۔ اتفاق سے اسی سال ان کے ہاں ایک فرزند کی ولادت عمل میں آئی۔ دوستوں نے گھر آکر مبارکباد دی تو انہوں نے مبارکباد کے جواب میں ارشاد فرمایا: مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے بے جا کا دوستوں میں سے کسی نے پوچھا مرزاصاحب : اس مصرعے کا یہاں کیا موقع تھا۔ بولے میں سب جانتا ہوں ہتھکنڈے ہیں چرخ نیلی فام کے

یوسف ناظم


 

Post a Comment

0 Comments