Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اردو ادب کا ماضی قریب میں

1935ء کے لگ بھگ اردو ادب کی رومانیت سماجی معنویت کی نئی جہت سے آشنا ہونے لگی۔ تخیلیت، جذباتیت، انفرادی درد مندی پر پلنے والی رومانیت کی سرحدیں محض ذات تک محدود نہ رہیں، بلکہ انفرادیت کا جوش و خروش اپنی خوشی اور سماج کو خوش حال دیکھنے کی تمنا میں ان تمام سماجی اداروں سے ٹکرانے لگا جو اس کی تمنا ؤں کی تکمیل میں حائل تھے۔ سب سے پہلی یلغار جنس اور مذہب کے مسلمہ اداروں پر ہوئی اور اس کے بعد سیاست پر۔ مگر ہر صورت میں اس یلغار کی بنیادی حیثیت انفرادی اور رومانی تھی اور اس کے ہتھیار جذبے کا وفور اور تخیل کی بے پناہ قوت ہی کے ذریعہ فراہم کیے گئے تھے۔ 

اس امتزاج کی سب سے واضح مثالیں اقبالؒ، اختر شیرانی اور جوش کی شاعری سے اور قاضی عبدالغفار، نیاز فتح پوری اور ابوالکلام آزاد کی نثر سے فراہم کی جا سکتی ہیں جو ذات ہی کے راستے سے ایک بت شکن رومانی انانیت تک پہنچے تھے اور یہ رومانی انانیت محض حجاب امتیاز علی کے ’’صنوبر کے سائے‘‘ خلیق دہلوی کے ’’ادبستان‘‘ اور سجاد حیدر یلدرم کے ’’خیالستان‘‘ تک محدود نہ تھی بلکہ ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ میں طوائف کے بدنام کردار کو موضوع سخن بنا کر سماج سے انتقام لیتی تھی۔ کبھی اختر شیرانی کے لفظوں میں اٹھ ساقی، اٹھ تلوار اٹھا کا راگ الاپتی تھی۔

کبھی جوش کی طرح مذہب کے سکہ بند ادارے کو للکارتی تھی، کبھی ابوالکلام کی نثر کا رجزیہ اسلوب بن کر سیاست کے رموز کھولتی تھی اور کبھی اقبالؒ کے تصور خودی کی شکل اختیار کر کے مرد کامل کے عشق کو عقل پر فوقیت دے کر تخیل اور جذبے کے رومانی آدرشوں کا پرچم بلند کرتی تھی۔ اس دور کے تخلیقی فن پاروں میں بنیادی فنی آویزش تغزل اور باطنی تجربے کی توسیع ہے۔ اس ضمن میں نظم میں سب سے اہم تجربے فیض، مجاز اور مخدوم نے کیے اور اپنی شاعری کو ذاتی تجربے کی واقعیت اور کلاسیکی درو بست کو سرشار شعریت سے پیوند کیا۔ فیض نے اپنے دور کے دکھ درد کو اپنی ذات کا حصہ بنا کر اسی کرب امروز کو نشاط فردا کی عظمت اور کج کلاہی کا ضامن بنا کر سطوت غم سے معمور چٹیل شعریت سے نئے آہنگ میں ڈھالا۔ 

مجاز کے سرشار لب و لہجے اور مخدوم کی رنگین غنائیت میں ڈوبے رجزیوں نے شعریت کو ایک نئی جہت دے دی۔ غزل میں فراق نئے دور کے کائنات آشنا انسان کی ربودگی کی آپ بیتی لکھ رہے تھے جبکہ جذبی کلاسیکی درو بست کے ساتھ غزلیہ رمز و ایما میں اور مجروح سلطانپوری بھر پور رومانی سرمستی سے سیاسی حالات کو غزل کی علامتوں میں سمونے کا تجربہ کر رہے تھے۔ اس کے پہلو بہ پہلو شعری سانچوں میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ راشد نے سب سے پہلے مؤثر طریقے پر آزاد نظم کو پرانے عروضی سانچوں سے آزاد کر کے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا۔ (گو تصدق حسین خالد اس قسم کی کوششوں کا آغاز کر چکے تھے ) اور نظم کو براہ راست بیانیہ اظہار کے بجائے متنوع اور مختلف جہات کے پیرایہ بیان کے لیے اختیار کیا جس میں کرداری پیرایہ بھی تھا اور ڈرامائی صورتحال سے نظم کے تاثر پیدا کرنے کی کوشش بھی تھی۔ (دریچے کے قریب) 

میراجی نے آزاد نظم کو لاشعوری کی پہنائیوں میں بکھیر کر اسے نجی اظہار کا پیرایہ بنایا اور ذاتی علامتیں ڈھال کر اسے ابہام اور اہمال کے قریب لے گئے جبکہ سلام مچھلی شہری نے عروضی تجربوں میں رقص اور مصوری کے طرز کو آزاد نظم کے لیے برتنے کی کوشش کی اور مختار صدیقی نے موسیقی کے طرز کو اپنایا۔ اس کے پہلو بہ پہلو قدیم طرز شاعری بھی پروان چڑھتا رہا گو اس طرز میں بھی مذاق عصر کے مطابق تبدیلیاں آنے لگیں۔ جگر مراد آبادی کے تغزل کی رنگینی اور سرمستی اب بھی مشاعروں پر چھائی ہوئی تھی مگر وہ بھی اب اپنی غزلوں میں سیاسی رمزیت کو جگہ دینے لگے۔ یگانہ کا آخری زمانہ تھا مگر اس زمانے میں بھی غزل میں خود داری اور بانکپن ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ 

افسانوی ادب میں کرشن چندر کے ناول ’شکست‘ اور افسانے ’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ میں جس رنگین اور سرشار رومانی نثر کو اس دور کے بے بس نوجوانوں کی تصویر کشی کے لیے استعمال کیا گیا اس نے ایک طلسماتی فضا پیدا کر دی تھی۔ راجندر سنگھ بیدی نے اسلوب کے بجائے کرداروں کی دروں بینی اور فرد کی سماج سے مطابقت کے مسئلے کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور انہیں چھوٹے چھوٹے اشاروں سے انسانی شخصیت اور بصیرت کی داستانیں بیان کی ہیں۔ عصمت مسلم گھرانوں کی دبی کچلی جوانیوں کی بے جھجک فریاد بیان کرتی ہیں اور غلام عباس کی ’آنندی‘ اور حیات اللہ انصاری کی ’آخری کوشش‘ دونوں کہانیاں اردو مختصر افسانے کو سماجیاتی سطح پر اقدار کی آبادکاری اور انسانی خواہشات کی چوکھٹ پر اقدار کی شکست و ریخت کی رزمیہ کہی جا سکتی ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے سماج کے معیاروں سے گرے ہوئے کرداروں کی تصویر کشی کر کے فرد کی تکمیل ذات کے نئے مطالبوں اور سماجی اقدار کے از کار رفتہ شکنجے کی کشمکش کو بے نقاب کر کے انسان کی بنیادی سچائی اور معصومیت کی کہانی بیان کی اور تکنیک کے اعتبار سے رومانی طرز احساس کو حقیقت پسندانہ سادگی میں بے محابا ادا کیا۔ طنز و مزاح میں رشید احمد صدیقی نے نئی ادبی اور فکری تہہ داری پیدا کی اور شوکت تھانوی نے اسے سماجی طنز کے طور پر برتا۔ کنہیا لال کپور کے ہلکے پھلکے مزاح نے سماجی ناہمواری اور ذات کے غیر متوازن رد عمل کو موضوع بنایا۔ ’’اداس نسلیں‘‘ سے لے کر ’’خدا کی بستی‘‘، ’’آنگن‘‘ اور ’’چاند گہن‘‘ تک اور پھر تمام ناسٹلجیائی افسانوی ادب میں فسادات، تقسیم اور جاگیرداری ثقافت کا زوال موضوع بنا رہا گو وہاں کے رویے مختلف تھے۔ 

صنعتی دور کی طرف بڑھنے والے سماج کا اعصابی تشنج، احساس تنہائی اور بکھرے ہوئے شعور نے فکر اور فن دونوں میں عہد آفریں تبدیلیاں پیدا کیں۔ نظم و نثر دونوں میں بکھرے تاثر پاروں سے وحدت تاثر کی مرکزیت حاصل کرنے کا تجربہ عام ہونے لگا جس کی مثالیں نظم میں اختر الایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ اور ’’سبزۂ بے گانہ‘‘ سے عمیق حنفی کی ’’سند باد‘‘ تک بکھری ہوئی ہیں۔ اسی طرح قرۃ العین حیدر کے ناولوں ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ اور ’’آگ کا دریا‘‘ میں یہی ریزہ کاری مرکزی تاثر کی تشکیل کرتی ہے۔ غزل میں بلند آہنگی کے بجائے نرمی اور آہستگی کے رواج نے میر کی تقلید کی طرف متوجہ کیا اور پاکستان میں ابن انشا اور ناصر کاظمی کی غزل میں نئے آہنگ نے رواج پایا۔

محمد ریاض


 

Post a Comment

0 Comments