مومن خاں مومن (1800-1852ئ) بھی مرزا غالب کی طرح اپنی انفرادیت لیے ہوئے تھے۔ سنجیدہ معاملہ بندی اور تغزل ان کی غزلوں کا مخصوص جوہر ہے۔ ان کی نازک خیالی ان کے شطرنج کے نقشوں کی طرح وقت نظر اور پیچیدگی کی حامل ہوتی ہے تغزل کے محدود دائرے ہی کے اندر یہ میناکاری کے نقش بٹھاتے ہیں جس کا مقصد محض پیچ کھولنا ہوتا ہے نہ کہ پیچ کھولنے کے بعد حصول انبساط۔ اسی تعقید کے باعث اکثر جگہ بیچ کی کڑیاں چھوڑ جاتے ہیں۔ رعایت لفظی کے بھی بے حد دلدا دہ تھے لیکن اس صنعت کو محض اسی کی خاطر کم استعمال کرتے ہیں مقصود معنی کی خوبیوں کو بڑھانا ہوتا ہے۔
الطاف حسین حالی کا خیال ہے کہ نزاکت وخیال کے معاملے میں غالب سے بھی سبقت لے گئے ہیں معاملہ ہندی میں جرأت کے متبع معلوم ہوتے ہیں لیکن پھر بھی بہ قول مولانا عبدالسلام ندوی ’’اس میں بھی دلی کی شان کو قائم رکھا اور نہایت شانت اور تہذیب کے ساتھ عشق و ہوس کے جذبات ادا کیے۔‘‘ مومن بھی غالب کی طرح ہمیشہ روش عام سے علیحدہ رہتے تھے ان کی مشکل پسند اور جدت طراز طبیعت کسی شعبے میں بھی تقلید کرنا عار سمجھتی تھی۔ عقائد میں حسن عقیدت اور جوش مذہب بہت ہے اور یہ ان کے ماحول اور تربیت کا نتیجہ ہے۔ اکثر جگہ دوسروں پر مذہبی نوک جھونک بھی کر جاتے تھے۔
مومن سے پہلے جس قدر شعرا گزرے ہیں بہ لحاظ ندرت، قصیدے میں بہ استثنائے سودا ان کا کوئی ہم سر نہیں اگرچہ ذوق کا پایہ پختگی اور صفائی میں کہیں برتر ہے تاہم زور اور ندرت ادا میں مومن کا جواب نہیں ان کی تشبیب عموما ًنادر اور پر لطف ہوتی ہے۔ تشبیب کو بھی مومن اس کے حقیقی معنوں میں پیش کرتے ہیں یعنی اس میں بھی تغزل کی شان نظر آتی ہے۔ مثنویاں ان کی زیادہ تر عاشقانہ ہیں اور ان میں آپ بیتی پائی جاتی ہے اور اکثر جگہ بہ قول امداد امام اثر کوچہ گردی کی بو آتی ہے۔ البتہ زبان کی سلاست اور جدید تراکیب کی لطافت مزہ دیتی ہے۔
0 Comments