Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

سوداؔ اور میرؔ کی شاعری

۱۸۰۰ء سے ۱۸۵۷ء تک جن دو شاعروں کا طوطی بولتا رہا اور جنہوں نے اردو کے اسالیب پر بے انتہا اثر ڈالا وہ میرزا محمد رفیع سودا اور میر تقی میر ہیں۔ سودا کا انتقال ۱۷۸۱ء میں اور میر کا ۱۸۱۰ء میں ہوا۔ یہ شعرا اس دور میں باقی تو نہیں تھے لیکن ان کے کارنامے زندہ تھے اور شعرا ان کی تقلید پر فخر کرتے تھے۔ اس دور کے سب سے معروف شاعر اور خدائے سخن میر تقی میر ہیں جن کا لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ جرأت، نظیر اکبرآبادی اور مصحفی وغیرہ نے اس دور کی اقتصادی بے چینی اور سماجی بدحالی کو اپنی آشوبیہ نظموں کے ذریعہ شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ہے۔ ان شہر آشوبوں میں انتظامیہ کی بد نظمی، رشوت ستانی، بے جا تکلفات، مبالغہ آمیزیوں اور بے ہودہ رسموں کا مذاق اڑایا ہے۔ 

ان نظموں میں اخلاقی پستی، اقتصادی بدحالی، نودولتوں کے چھچھور پن اور شاعروں کی مصیبتوں کی بڑی خوبصورتی سے ترجمانی کی گئی ہے۔ سودا کی مثنوی شیدی فولاد خاں پر محض ایک شخص کی تضحیک ہی نہیں ہے بلکہ پورے دور کی بد انتظامی پر طنز ہے۔ میر کی شہرت کا انحصار ان کی غزلوں اور مثنویوں پر ہے۔ مفلسی اور گداگری سے لے کر عشق کی ناکامی تک کوئی مصیبت ایسی نہ تھی جو میر نے نہ جھیلی ہو۔ میر کے یہاں جو درد مندی اور انسان دوستی ہے وہ اردو شاعری کی بڑی دولت ہے۔ اسی دور کے ایک ممتاز صوفی شاعر خواجہ میر درد ہیں جن کا انتقال ۱۷۸۵ء میں ہوا لیکن اردو کی متصوفانہ شاعری کا قافلہ ان کے بتائے ہوئے خطوط پر چلتا رہا۔ 

خواجہ میر درد سارے انقلابات کے باوجود دہلی ہی میں مقیم رہے۔ لیکن لکھنؤ اس وقت اہل کمال کی سب سے زیادہ قدر اور دولت کی ریل پیل تھی۔ اس لیے شاعروں کی سب سے بڑی تعداد لکھنؤ منتقل ہو گئی۔ لکھنؤ میں بہار دہلی میں پت جھڑ کے بعد آئی جیسے جیسے لکھنؤ سیاسی اعتبار سے آزاد ہوتا گیا اس نے ادب و شعر میں بھی اپنے سکے رائج کیے۔ لیکن سودا، میر تقی میر، میر حسن، مصحفی، انشا اور جرأت سب دہلی چھوڑ کر لکھنؤ جا بسے۔ بعض شاعر فرخ آباد، ٹانڈا، عظیم آباد اور حیدرآباد چلے گئے۔ لیکن اودھ کا علاقہ کھڑی بولی سے دور ہے۔ اس لیے وہاں کی زبان میں ٹھیٹ اردو کا مزہ کم ہے۔ تکلف اور تصنع زیادہ ہے۔

محمد ساجد


 

Post a Comment

0 Comments