Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ناصر کاظمی کا سفر حیات

ناصر کاظمی دسمبر 1925 ء میں محلہ قاضی واڑہ شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام محمد سلطان تھا اور وہ رائل انڈین فورس میں صوبیدار میجر تھے۔ ناصر کاظمی کا اصل نام ناصر رضا تھا۔ انہوں نے اپنے بچپن کے ایام انبالہ ہی میں گزارے۔ ناصر کاظمی نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے دادا اور نانا کے گھروں پر حاصل کی۔ سکول کی ابتدائی تعلیم نوشہرہ سے حاصل کی کیونکہ ان دنوں ان کے والد بسلسلہ ملازمت نوشہرہ میں تھے۔ ناصر کاظمی جب چوتھی جماعت میں تھے تو ان کے والد کا تبادلہ پشاور ہو گیا اور وہ یہاں آکر نیشنل ہائی سکول پشاور میں داخل ہو گئے۔ چھٹی تک اسی سکول میں زیر تعلیم رہے اور مڈل کا امتحان ڈی بی مڈل سکول ذکشائی سے پاس کیا۔ میٹرک کا امتحان انبالہ مسلم ہائی سکول (انبالہ) سے پاس کیا۔ 

لاہور آ کر گورنمنٹ اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہو گئے۔ ناصر کاظمی نے اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا تیرہ برس کی عمر میں کی اور ابتدا میں نظمیں اور پھر غزلیں کہیں۔ انہیں بطور شاعر مقبولیت اس وقت حاصل ہوئی جب وہ ایف اے کے طالب علم تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے اشعار کی مہک گوشے گوشے میں پھیل گئی اور پاکستان کو ناصر کاظمی کے روپ میں ایک نیا شاعر نصیب ہوا۔ ناصر کاظمی 1939 ء میں لاہور ریڈیو کے ساتھ بطور سکرپٹ رائٹر منسلک ہو گئے۔ یہ ملازمت انہیں صرف سولہ برس کی عمر میں حفیظ ہوشیار پوری اسٹیشن ڈائریکٹر کے توسط سے ملی تھی۔ 

ریڈیو پر ناصر کاظمی کا پروگرام ’’سفینہ غزل‘‘ بہت مقبول ہوا تھا جس میں وہ پروگرام کا سکرپٹ خود لکھتے تھے اور مختلف کلاسیکی شعرا کا کلام منتخب کر کے بڑے گلوکاروں کی آواز میں پیش کیا جاتا تھا۔ ادب ، آرٹ ، موسیقی اور فلسفہ سے ان کی خصوصی دلچسپی کا اظہار تخلیقی اعتبار سے ریڈیو پر بھی ہوا اور انہوں نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران اپنے اس خوبصورت شغف کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ وہ مختلف ادبی جریدوں ’’اوراق نو‘‘ ’’ہمایوں‘‘ اور ’’خیال‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ وہ محکمہ سماجی بہبود آبادی میں ملازم رہے اور 1959 ء سے لیکر 1964 ء تک ولیج ایڈ محکمہ میں رسالہ ’’ہم لوگ‘‘ کے نائب مدیر اور اسسٹنٹ پبلسٹی آفیسر رہے۔ 1964 ء تادم آخر ریڈیو پاکستان کے سٹاف آرٹسٹ ر ہے۔

ناصر کاظمی نے نثر لکھی اور رونامچے تحریر کئے۔ پرندوں ‘ درختوں ‘ ستارں ‘ آبشاروں ‘ دریائوں ‘ ندیوں ‘ پہاڑوں ‘ کبوتروں ‘ چڑیوں اور فطرت کے ایک ایک رنگ کو اپنا ہمراز بنایا اور موسیقی ‘ شطرنج ‘ پتنگ ‘ گھڑ سواری ‘ سیر سپاٹے اور شکار سے اپنا دل بہلایا۔ ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ ’’برگ نے‘‘ کے نام سے ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کی نظمیں اور غزلیں مختلف معروف ادبی رسائل میں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ ان کی شعری اور نثری تصانیف درج ذیل ہیں۔ -1 برگ نے (غزلیں) 1952 ء، -2 دیوان (غزلیں) 1972ء، -3 پہلی بارش (غزلیں) 1975ء ، -4 نشاط خواب (نظمیں) 1977ء، -5 سر کی چھایا (منظوم ڈرامہ) 1981ء، -6 خشک چشمے کے کنارے (نثری تحریریں) 1990ء، -7 کلیات ناصر۔ اس کے علاوہ ان کا انتخاب کردہ کلام میر ‘ نظیر ‘ ولی اور انشاء بھی شائع ہو چکا ہے۔ 

ناصر کاظمی متنوع موضوعات کے شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کے حسن کے سینکڑوں پہلوئوں اور رنگا رنگی کو عام کر دیا ہے۔ ان کے لہجے میں کھنک ہے جس میں ہندوستان اور پاکستان کے بسنے والے اپنے دلوں کی دھڑکنیں محسوس کرتے ہیں۔ ناصر کاظمی کا نظریے سے زیادہ زمین کے ساتھ گہرا رشتہ تھا۔ اس زمین کے توسط سے ان کی پرندوں ‘ درختوں ‘ پہاڑوں ‘ آبشاروں ‘ ندیوں ‘ دریائوں‘ باغوں اور ہر اس شے سے قربت تھی جس کے بدن سے انہیں اپنی مٹی کی خوشبو آتی تھی۔ ان کی تمام شاعری اس خوشبو کی بازیافت کا نام ہے۔ جب سے ناصر کاظمی نے اس خوشبو سے آشنائی حاصل کی وہ اس کی مہک کے رسیا رہے۔ اسی خوشبو کے سبب ان کی زندگی کے رویے ہجر و وصال کے موسموں سے آشنا ہوئے۔

ان ہی موسموں کے سبب ناصر کاظمی کے یہاں اداسیوں ‘ یادوں ‘ رتجگوں ‘ سرسوں کے پھولوں ‘ ستاروں ‘ بسنتوں ‘ چاند ‘ بارشوں ‘ پت جھڑوں ‘ پرندوں اور درختوں کے استعاروں کے رنگ نمایاں ہوئے۔ انہوں نے اپنی غزل میں تخلیقی بازیافت اور خود آگاہی کی خوشبو سے ماضی ‘ حال اور مستقبل کی تہذیبی اور ثقافتی مہکاروں کو یکجا کیا۔ ناصر کاظمی کی شاعری یادوں اور خوابوں کا بیان ہے۔ ان کی شاعری کے موسم ان کے اپنے اندر کے موسموں پر مشتمل ہیں۔ یہ ایسے موسم ہیں جن کا تعلق روح اور دل سے ہے۔ ناصر کاظمی ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اقبالؒ کے بعد غزل کو نہ صرف نیا پیراہن عطا کیا بلکہ اسے استحکام بھی عطا کیا۔ اردو شاعری میں ناصر کاظمی کا نام تابندہ و پائندہ رہے گا۔ ناصر کاظمی نے 2 مارچ 1972 کو معدہ کے کینسر کی وجہ سے وفات پائی۔

اسلم انصاری


 

Post a Comment

0 Comments