ایک بڑی کتاب کے پیچھے ایک بڑا ذہن اور ایک بڑا تجربہ ہوتا ہے۔ ایک بڑا مصنف بہت سے، ان گنت، چھوٹے، گمنام اور عام مصنفوں کی ہل چلائی ہوئی زمین میں اپنی ذہانت، تجربے اور روایت کا بیج بوتا ہے۔ ہر بڑی کتاب ایک خاص معاشرے اور تہذیب کی عکاسی ہی نہیں کرتی بلکہ اس بڑی تہذیب اور معاشرے کی پیداوار بھی ہوتی ہے۔ بعض کتابوں کو پوری انسانی تہذیب اور ان گنت انسانوں اور نسلوں کا اجتماعی تجربہ تحریر کرتا ہے۔ کسی ماہیا، کسی بولی، ان گنت لوک گیتوں اور کتھاؤں کی طرح بعض کتابوں کے مصنفوں کے بارے میں بھی کبھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کون تھے۔ ہر دور میں انسان ایک تہذیب اور ایک معاشرے کو جنم دیتا رہا اور پھر یہ تہذیب اور یہ معاشرہ اپنا اظہار بھی کرتا رہا۔
ایلورا اور افریقی ممالک کی غاروں میں زمانہ قدیم میں کی گئی تصویر کشی اور سنگ تراشی دراصل انسانوں کے اجتماعی تہذیبی اور تخلیقی جذبوں ہی کا اظہار تھا۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ بھی ایک ایسی کتاب ہے جس کو ایک تہذیب نے جنم دیا۔ انتظار حسین نے لکھا ہے ’’الف لیلیٰ کو جس تخلیق نے جنم دیا ہے، آج ہم اس کے خالق یا خالقوں کے نام صحیح طور پر نہیں بتا سکتے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ سارے عربوں نے یا پوری تہذیب نے اسے تصنیف کیا ہے۔‘‘ ایک پوری تہذیب کی یہ تصنیف ۔۔۔ الف لیلیٰ، دنیا کی ان معدودے چند کتابوں میں سے ہے جس نے ایک وطن میں بھی اس طرح جنم لیا کہ جیسے اس کا خمیر عالم گیریت اور بین الاقوامیت سے اٹھا ہو اور مکمل ہونے کے بعد بھی اس کا گھر اور وطن ساری دنیا ہو۔ الف لیلیٰ کے ایک ہزار ایک روپ ہیں۔
یہ عربوں کی اس تہذیب کی پیداوار ہے جس میں عرب تاجر کی حیثیت سے دنیا دنیا گھومتے تھے۔ رنگ رنگ کے لوگوں کو ملتے اور طرح طرح کے عجائبات سے متعارف ہوتے تھے۔ خاص قبائلی طرزاحساس رکھنے والے ان جہانیاں جہاں گشت عربوں نے دنیا بھر میں جو دیکھا، جو سنا، وہ اپنے خاص انداز میں، قصے اور حکایت کے روپ میں الف لیلیٰ کی کہانیوں میں یک جان کر دیا۔ محققین نے الف لیلیٰ پر جو کام کیا ہے، وہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ صدیوں سے الف لیلیٰ انسانوں کے مطالعے میں رہی ہے۔ ایک نسل سے دوسری نسل تک، ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک زبان سے دوسری زبان تک، الف لیلیٰ کا سفر، چہار اکناف عالم کا احاطہ کرتا ہے۔ دیس دیس کے لوگوں اور محققوں نے اپنے اپنے زمانے میں جادو کے اس پٹارے کے طلسم کے بارے میں کھوج لگانے کی کوشش کی ہے اور کچھ نتائج برآمد کیے ہیں۔
الف لیلیٰ میں بہت سی ایسی کہانیاں ہیں جو دوسرے ملکوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً الہٰ دین اور جادوئی چراغ کو ہی لیجیے تو اس کا قدیم ترین سراغ قدیم چین میں بھی ملتا ہے۔ سند باد کے ڈانڈے قدیم تہذیبوں سے جا ملتے ہیں۔ اس طرح بہت سی کہانیوں کے واقعات و عناصر ایسے ہیں جو عربوں کی سیاحت اور تجارتی سفر کے تجربے کے حوالے سے عربوں تک پہنچے اور انہوں نے ان کو اپنا رنگ دے کر الف لیلیٰ میں شامل کر لیا۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ کتابی اور تحریری صورت میں آنے سے پہلے یہ کہانیاں عرب ایک دوسرے کو سناتے تھے۔ حتیٰ کہ عربوں کے معاشرے میں بڑے میلے لگتے۔ وہاں شاعری کے مقابلوں کے ساتھ ساتھ کہانیاں سنانے کا بھی مقابلہ ہوتا تھا۔ بازاروں اور قہوہ خانوں اور سراؤں میں بھی داستان گو، یہ کہانیاں سناتے تھے۔
سفر کے مراحل طے کرنے والے قافلے کہیں پڑاؤ کرتے تو کہانیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا۔ تھکن بھی اتر جاتی اور ذہن بھی تازہ ہو جاتا۔ الف لیلیٰ کو کس نے پہلی کتابی اور تحریری صورت دی، اس سلسلہ میں کسی ایک کا نام نہیں لیا جاتا۔ محققوں نے بھی جو تحقیق کی ہے، وہ بھی کسی دوٹوک فیصلے تک نہیں پہنچتی۔ الف لیلیٰ کو ایک پورے معاشرے، ایک پوری جیتی جاگتی دنیا اور ایک بھرپور تہذیب نے تخلیق کیا ہے۔ تاہم ہمیں محققوں کے حوالے سے ضرور پتہ چلتا ہے کہ الف لیلیٰ کو تحریر کرنے کا زمانہ عباسی دور کے خلفا یا اس کے بعد کا ہے۔ الف لیلیٰ کے جادو اور طلسم کا اندازہ تو اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممکنہ طور پر عباسی دور خلافت کے بعد جب یہ تحریری صورت میں آئی تو ساری دنیا میں اس طرح مقبول ہوئی جیسے واقعی جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
اب تک اس کا جادو قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گا۔ الف لیلیٰ میں سحر ہے، کشش ہے، ایسا جادو ہے جو سب کو اسیر کر لیتا ہے، عالمی ادب میں شاید چند ہی ایسی کتابیں ہوں گی جن کے اثرات اتنے ہمہ گیر اورلافانی ہوں گے جتنے الف لیلیٰ کے۔ الف لیلیٰ کے کرداروں نے عالمی ادب کو نئی معنویت، نئی علامتیں اور نئے استعاروں کی دولت سے ہر دور میں مالا مال کیا ہے۔ یہ وہ کردار ہیں جو نہ صرف ایک تہذیب کی پیداوار ہیں بلکہ ہر انسان کے جذبات، امنگوں، حسرتوں، خوشیوں، مہموں، جذبۂ سیاحت، نفرت، محبت اور ان گنت احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
0 Comments