Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

انمول شاعر استاد دامن

چراغ دین نام اور دامن تخلص تھا۔ آپ 4 ستمبر 1911ء میں چوک متی لاہور میں پیدا ہوئے۔ والد میراں بخش درزی کا کام کرتے تھے۔ بچپن ہی میں استاد دامن نے تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیلرنگ کا کام بھی کرنا شروع کیا۔ جب استاد دامن کی عمر 13 سال ہوئی تو ان کا خاندان چوک متی سے باغبانپورہ منتقل ہو گیا۔ وہاں بھی انہوں نے درزی کی دکان شروع کی اور دیو سماج سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ کو شاعری کا شوق تو بچپن ہی سے تھا لیکن باقاعدہ طور پر شاعری کا آغاز میٹرک کے بعد کیا اور مختلف جلسوں اور مشاعروں میں اپنا پنجابی کلام سنانے لگے۔ 1940ء میں میاں افتخار الدین کی صدارت میں ہونے والے میونسپل کمیٹی لاہور کے اجلاس میں کمیٹی کی کارکردگی پر تنقیدی نظم پیش کی اور خوب داد حاصل کی۔ اس کے بعد ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے سیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغاز کیا۔

آپ کی شاعری زبان زد عام و خاص ہو گئی اور آپ ہر دلعزیز شاعر کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔ آزادی کے بعد ہونے والے فسادات میں آپ کی دکان لوٹ لی گئی اور پیسے کی کمی کے باعث وہ باغبانپورہ سے بادشاہی مسجد کے قریب حجرے میں منتقل ہو گئے۔ کل اثاثہ چند کتابیں تھیں۔ 1949ء میں آپ ٹیکسالی گیٹ میں واقع اس حجرے میں منتقل ہو گئے جس میں حضرت شاہ حسین (مادھو لال حسینؒ) بھی مقیم رہے تھے، تادم مرگ یہی حجرہ ان کا مسکن ٹھہرا۔ اسی دور میں استاد دامن کی شادی ہوئی لیکن کم سن بیٹا اور بیوی انتقال کر گئے اور پھر تمام عمر شادی نہ کی۔ استاد دامن نے جب شاعری کا آغاز کیا تو ہمدم تخلص کرتے تھے لیکن جلد ہی اسے ترک کر کے ’’دامن‘‘ تخلص کرنے لگے۔ پنجابی شاعری میں استاد ہمدم کے شاگرد ہوئے اور ان کی شاگردی کو اپنے لئے باعث فخر تصور کرتے تھے۔ دامن نے پنجابی شاعری کی فنی خوبیوں پر ملکہ رکھنے کی بدولت اہل علم و فن افراد سے استاد کا خطاب حاصل کیا۔ وہ مزدوروں‘ کسانوں‘ غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے۔ 

انہوں نے ان طبقوں کی حمایت اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقوں کی مذمت کرتے رہے۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ کیلئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اور ادبی تنظیم ’’پنجابی ادبی سنگت‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے سیکرٹری بھی رہے۔ استاد دامن کی سب سے بڑی خوبی ان کی فی البدیہہ شاعری تھی۔ خدا نے انہیں ایسے ذہن اور فکر سے نوازا تھا کہ وہ موقع کی مناسبت سے چند لمحوں میں اشعار کی مالا پرو دیتے تھے اور حاضرین کیلئے تسکین کے ساتھ ساتھ حیرت کے اسباب بھی پیدا کر دیتے تھے۔ آزادی کے کچھ عرصے بعد انہوں نے دلی میں منعقدہ مشاعرے میں یہ فی البدیہہ نظم پڑھی: 

جاگن والیاں رج کے لٹیا اے سوئے تسی وی او‘

 سوئے اسیں وی آں لالی اکھیاں دی

 پئی دس دی اے روئے تسی وی او‘ روئے اسیں وی آں

اس نظم کی سماعت پر حاضرین مشاعرہ بے اختیار رونے لگے۔ مشاعرے میں جواہر لعل نہرو (اس وقت کے وزیراعظم ) بھی موجود تھے۔ انہوں نے استاد دامن سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ مستقل طور پر بھارت میں قیام فرمائیں لیکن انہوں نے جواب دیا کہ ’’اب میرا وطن پاکستان ہے۔ میں لاہور ہی میں رہوں گا، بے شک جیل ہی میں کیوں نہ رہوں‘‘۔ 

اس محب وطن شاعر نے ساری زندگی کسمپرسی کی حالت میں گزاری مگر مرتے دم تک وطن سے محبت کے گیت گاتا رہا۔ اس دھرتی کو نفرتوں‘ بے ایمانوں اور عیاروں سے پاک کرنے کیلئے محبتوں کے پھول بکھیرتا رہا اور ان برائیوں کی اعلانیہ نشاندہی اور مذمت کرتا رہا۔ استاد دامن نے آزادی کے بعد رونما ہونے والے سیاسی زوال پر سیاست دانوں کی کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان پر بھرپور تنقید کی اور عوامی شعور کو بیدار کیا۔ وہ وطن عزیز کی ترقی کے خواہاں تھے۔ اس ملک کے دن بدن زوال کی وجہ سے ان کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ملکی و ملی پستی کی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہوئے استاد دامن کہتے ہیں: 

بھج بھج کے وکھیاں چور ہوئیاں 

مڑ کے ویکھیا تے کھوتی بوہڑ ہیٹھاں

استاد دامن اپنی شاعری میں زبان کے تکلف سے ہٹ کر اپنے خیالات اور نظریات کے پرچار پر زیادہ زور دیتے تھے۔ وہ عام بول چال کی زبان میں اپنا خیال پیش کر کے سامعین و قارئین کے دلوں کی گہرائیوں کو چھو لیتے تھے۔ یہی ان کا مدعا تھا اور یہی ان کا مقصد حیات کہ بات دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے۔ اس مقصد میں انہیں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے پنجابی شاعری کے ذریعے پنجاب کی ثقافت کے تمام رنگوں کو اجاگر کیا۔ ان کی لوک شاعری نے لوگوں کو خصوصی طور پر اپنی طرف متوجہ کیا۔ ان کے لہجے میں طنز اور مزاح تھا۔ انہوں نے مزاح کے انداز میں لوگوں کو معاشرتی برائیوں سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیشہ سچ کی تائید اور جھوٹ کی تردید کی۔ استاد دامن کی شاعری میں لوک رنگ‘ تصوف‘ سیاسی موضوعات اور روایتی موضوعات کے علاوہ روزمرہ زندگی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ ان کی شاعری حقیقت نگاری اور فطرت نگاری کی خوبیوں سے مالا مال ہے اور انسانی زندگی کی خوبصورت عکاس ہے۔

ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف منفرد شاعر فیض احمد فیض نے ایک نجی محفل میں یہ کہہ کر کیا کہ ’’میں پنجابی میں صرف اس لیے شاعری نہیں کرتا کہ پنجابی میں شاہ حسین‘ وارث شاہ اور بلھے شاہ کے بعد استاد دامن جیسے شاعر موجود ہیں۔ بلاشبہ استاد دامن پنجابی شاعری کا ناز ہیں اور ان کا شعری سرمایہ پنجابی ادب کا انمول خزانہ ہے‘‘۔ استاد دامن کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ جب قیام پاکستان کے بعد کچھ شرپسند عناصر نے ان کی ذاتی لائبریری اور دکان کو آگ لگا دی تو ان کی ذاتی تحریریں‘ ہیر کا مسودہ جسے وہ مکمل کر رہے تھے اور دوسری کتابیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ انہوں نے دل برداشتہ ہو کر اپنا کلام صفحات پر محفوظ کرنا چھوڑ دیا اور صرف اپنے حافظے پر بھروسہ کرنے لگے۔ اس وجہ سے ان کا زیادہ تر کلام ضائع ہو گیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہونے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہدیداروں نے بڑی محنت و کاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھرے ہوئے کلام کو یکجا کر کے ’’دامن دے موتی‘‘ کے نام سے ایک کتاب ہمارے سامنے پیش کی۔ 

اس کاوش سے جہاں پنجابی ادب کو بہت فائدہ ہوا اور اس کے شعری سرمائے میں اضافہ ہوا وہاں شعری ذوق رکھنے والے افراد کو بھی استاد دامن کی شاعری سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ استاد دامن نے فلموں کیلئے بھی گیت لکھے۔ ان کا فلم ’’غیرت تے نشان‘‘ میں شامل یہ گیت بہت مشہور ہوا۔ 

مینوں دھرتی قلعی کرا دے میں نچاں ساری رات 

نہ میں سونے دی نہ میں چاندی دی میں پتل بھری پرات

استاد دامن‘ پنجابی کے علاوہ اردو‘ سنسکرت‘ ہندی اور انگریزی زبانوں پر بھی دسترس رکھتے تھے لیکن انہوں نے وسیلۂ اظہار اپنی ماں بولی زبان پنجابی ہی کو بنایا۔ استاد دامن بلھے شاہ اکیڈمی کے سرپرست‘ مجلس شاہ حسین کے سرپرست اور ریڈیو پاکستان شعبہ پنجابی کے مشیر بھی تھے۔ عوام سے پیار کرنے والا یہ عوامی شاعر تین دسمبر 1984ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گیا اور اپنی وصیت کے مطابق مزار مادھو لال حسین کے احاطے میں واقع قبرستان میں دفن ہوا۔ وہ اپنے بکھیرے ہوئے قیمتی موتیوں اور منفرد لہجے کے شاعر کی حیثیت سے زندہ و تابندہ رہیں گے۔

ممتاز حسین


 

Post a Comment

0 Comments