ایک دور تھا کہ ہمارے ڈرامے ہماری پہچان ہوا کرتے تھے دنیا کے کئی ملکوں میں ہمارے ڈراموں کو بہت پسند کیا جاتا تھا ۔ ہمارے ڈرامے دنیا کے کئی ملکوں کے فنی اداروں کے نصاب میں شامل ہوا کرتے تھے۔ لیکن جوں جوں جدید ٹیکنالوجی میں اضافہ ہوا اس طرح نجی چینل میں بھی اضافہ ہوا اور لوگ پی ٹی وی کو چھوڑ کر نجی چینل کے ڈراموں میں دلچسپی لینے لگے۔ شروع شروع میں پرانے رائیٹر نے بہت بہترین کہانیاں تخلیق کر کے انہیں ڈرامے کا رنگ دیا اور وہ بہت کامیاب بھی ہوئے ۔ پھر نئے لکھاریوں کی آمد ہوئی اور ان کی کہانیوں میں معاشرے کے لیے سبق کے بجائے معاشرے کی خامیوں کو اُبھارا گیا اور انکا سد باب ڈھونڈنے کے بجائے اُسے غلط رنگ دے کر پیش کیا گیا ۔
پھر پڑوسی ملک کے گلیمر نے ان چینلوں پر اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور فیشن کے نام پر لڑکیوں کے دوپٹے تو سر سے کیا سرکتے غائب ہی ہونا شروع ہو گئے۔ بڑھتے بڑھتے لڑکیاں شارٹ شرٹ اور جینز میں نمایاں ہونے لگیں ۔ مشرقی لڑکیوں پر مغربی انداز انے انہیں ایسا رنگ چڑھایا کہ وہ نا تین میں رہیں نا تیرہ میں ۔ نا تو وہ پاکستانی کلچر کی عکاسی کرتے ہیں اور نا مغربی تہذیب میں جچتی ہیں۔ ایسے ڈرامے نشر ہونے لگے کہ پرانے لکھاریوں نے اپنے قلم روک دیے جن میں حسینہ معین ، فاطمہ ثریا بجیا قابلِ ذکر نام تھے۔ صرف فیشن ، بے جا آزادی ، خاندانوں کے مسائل، عورتوں کی گھریلو سیاست، مشترکہ خاندان کا بائیکاٹ ، علیحدگی کا تصور، میاں بیوی کے جھگڑے ، بھائیوں اور بہنوں کا ماں باپ اور بہن بھائیوں سے ناروا سلوک ، عورت کی تذلیل عورتوں کا دوسرے مردوں میں دلچسپی کے انداز ، گھریلو ناچاقیاں اور سب سے بڑھ کر طلاق جیسی لعنت کا نارمل انداز میں پیش کرنا یہ سب اب ہمارے پاکستانی ڈراموں کی کہانیوں کا حصہ ہیں۔
ابھی حال ہی میں چند ایسے ڈرامے بھی دیکھائے گئے جسمیں عورتوں پر تشدد مردوں کا حق سمجھ کر دکھایا گیا ۔ جعلی پیر فقیر ی بھی ہمارے معاشرے میں ان ہی ڈراموں کی وجہ سے عورتوں میں بد عقیدگی جیسی برائیاں ڈال رہی ہیں۔ پاکستان کی وہ ان پڑھ عورتیں ان ڈراموں کی وجہ سے اپنی زندگیاں ان پیر فقیر اور الٹی سیدھی کہانیوں کو اپنا حصہ بنا کر تباہ کر رہی ہیں۔ نجی چینلز کے چند یہ ڈرامے جن میں پاکیزہ ، خدا دیکھ رہا ہے، انابیہ، ذرا یاد کر، جورو کے غلام، من مائل، تمہارے سوا جیسے ڈراموں میں صرف اور صرف طلاق کو فوکس کیا گیا ہے ان میں سے کچھ ڈرامے تو ایسے ہیں جن میں طلاق کے باوجود لڑکی واپس جانے کو تیار ہو جاتی ہے اور کچھ ایسے کہ لڑکی خود حلالہ کر کے دوبارہ پہلے شوہر سے شادی کرنے کے لیے دوسرا شوہر تلاش کرتی نظر آتی ہے اور کچھ طلاق کے بعد نا محرم کے ساتھ رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں ۔
یہ سب کہانیاں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی بھی نا سمجھ اور ان پڑھ لڑکی اپنے گھر کے بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے اور خاص کر پاکستان کی 50 فی صد سے زائد آبادی دیہاتوں میں موجود ہے اور دیہات میں آج بھی ٹی وی کو تفریح کا ایک بڑا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ایسے میں ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت ڈراموں کے ذریعے اسلامی احکامات کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنا اس طرح کے سوالات اُٹھانا اور لوگوں میں ابہام پیدا کرنا عوام کو اسلام سے دور کرنے اور اسلامی تعلیمات پر پکے بھروسے کو متززل کرنا ہے ۔ کیا وزارتِ اطلاعات و نشریات کا کوئی بورڈ ایسا نہیں جو فلم یا ڈرامے کو پکچرائز کرنے سے قبل چیک کرے اور اس کی منظوری دے ۔
کیا حکومتِ پاکستان نے ایسی کوئی ایڈورائزری کمیٹی تشکیل نہیں دی جو ان مالکان کو مشورہ دے۔ سب سے بڑھ کر حیرت کی بات یہ ہے کہ شرعی احکامات کی اتنی کھلم کھلا خلاف ورزی پیمرا کے علم میں کیوں نہیں اور اس پر کوئی رکاوٹ کیوں نہیں۔ ٹی وی پر بے حیائی عروج پر ہے اور صاف لگتا ہے کہ یہ سب باقاعدہ ایک منظم سازش کے تحت ہو رہا ہے ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل ہوا تھا دو قومی نظریہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے لیکن کیا یہ اسلامی مملکت کا میڈیا ہے؟ کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے ذہنی پستی سے نکالنے کے لیے میڈیا کو عوام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب میڈیا میں ایسے کام کرنے لگے جو اپنی ہی اخلاقی برائیوں کو اچھائی بنا کر پیش کرنے میں صرف پیسہ اور شہرت کمانے کے لیے تو آنے والے وقت میں ہم اس میڈیا سے کیا توقع رکھیں؟
اس میڈیا نے گھر کے جھگڑوں پر ایک باقاعدہ پروگرام ترتیب دے کر لوگوں کو مدعو کیا جس میں لوگ مسئلے کا حل تو کیا ڈھونڈیں گے اپنے لیے ہنسی مذاق اور وقت گزاری کا ذریعہ سمجھ لیا۔اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میڈیا کا یہ سیلاب ان گھروں کو بہا کر لے جائے جن میں معمول کے مطابق رشتوں میں تھوڑی تلخی ہے ہمیں ان تمام پروگراموں کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اپنے لیے اصلاح کا پہلو خود سوچنا ہو گا کہ آیا ان ڈراموں سے کہیں ہمارے گھر کے معاملات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ کہیں یہ ہماری سوچ کا رُخ کسی برائی کی طرف تو نہیں موڑ رہے ہیں اپنی خود اصلاح کرتے ہوئے تمام اخلاقی برائیوں سے دور رہنا ہو گا اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔
0 Comments