Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

میکاولی کون تھا ؟

میکاولی کی پیدائش 1469ء میں اطالیہ کے مشہور شہر فلورنس کے ایک متوسط مگر متمول اور عالی نسب خاندان میں ہوئی۔ اس کا باپ ایک اچھا خاصا کامیاب وکیل تھا۔ میکاولی کے بچپن کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ اس کی تعلیم مروجہ نظام کے مطابق ہوئی تھی۔ لاطینی زبان میں اس نے کافی ملکہ حاصل کر لیا۔ یونانی زبان سے بھی اسے تھوڑی بہت واقفیت تھی۔ اپنے زمانے کے کلاسیکی ادب سے بھی اسے خاصا لگاؤ تھا۔ اہل روم کی تاریخ ان کے سیاسی اداروں اور نظریات کے بارے میں اس نے اچھی خاصی مہارت حاصل کر لی تھی۔

اس کے بچپن اور جوانی کے دور میں میڈیچی ( Medici) خاندان اپنے انتہائی عروج پر تھے۔ لیکن لورنزو کی موت کے بعد میڈیچیوں کا زوال ہو گیا اور فلورنس میں جمہوریت قائم ہو گئی۔ فلورنس کے اس جمہوری انقلاب سے میکاولی کی عملی و سیاسی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1598ء میں وہ نئی حکومت میں مجلس دہ سری کا سیکریٹری مقرر ہوا اور چودہ برس تک اس اہم عہدہ پر فائز رہا۔ اس مجلس یا شعبہ حکومت کے فرائض و اختیارات میں امور داخلہ و جنگ اور فوجی نظم و نسق شامل تھے۔ وہ فلورنس کے حکمران خاندان ساڈرینی کا دوست تھا۔ خاندان جمہوری حکومت کے قیام کا خواہاں اور میڈیچیوں کی اشرافی حکومت اور ساوونار ولا کی انتہاپسندی دونوں کا مخالف تھا۔ اس برسراقتدار خاندان سے اپنی دوستی اور قریبی تعلقات کے باعث میکاولی متعدد بار غیر ملکی مذاکرات کے لیے فلورنس کا سفیر چنا گیا۔ 

اس طرح میکاولی کا تعلق نہ صرف ملکی امور اور سیاست سے بلکہ خارجہ پالیسی اور بین الملکی سیاست سے بھی تھا۔ اپنے فرائض منصبی کو بجا لانے کے سلسلے میں اس کے لیے فطری اور لازمی تھا کہ وہ دوسری اطالوی اور غیر اطالوی ریاستوں کی سیاست سے کماحقہ واقفیت رکھے تاکہ فلورنس کی آزادی اوراس کے مفاد پر کسی طرف سے کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ اس طویل عرصہ میں اسے متعدد بار مختلف ملکوں کا سفر بھی کرنا پڑا۔ مثلاً 1500ء میں میکاولی کو فرانس کے لوئی دوازدہم کے حضور میں جانے کا موقع ملا۔ 1502 میں سیزربورجیا کی خدمت میں پہنچا، 1503ء میں اس نے پوپ پائیس سوم کے انتقال اور نئے پوپ کے انتخاب کے موقع پر روم کا سفر کیا، 1506ء میں اسے پوپ جولیس دوم سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ 

اس طرح اس نے فلورنس اور دوسرے ممالک کی سیاسی زندگی کا غائر مطالعہ کیا اور سولہویں صدی میں یورپ کی حکومتیں جن مسائل، مشکلات، خانہ جنگیوں، بغاوتوں، سیاسی شورشوں اور بدامنیوں وغیرہ سے دوچار تھیں اور عملی سیاست میں جن قدروں یا اصولوں پر اس صدی کے حکمران عمل پیرا تھے ان سب کا اسے ذاتی علم اور عملی تجربہ ہوا اور اس کے فکرونظر پر گہرا اثر پڑا۔ دریں اثنا میڈیچی فلورنس میں دوبارہ برسراقتدار آنے کے لیے سازش کر رہے تھے۔ بالآخر وہ 1512ء میں ساڈرینی خاندان کے تحت حکومت کو پلٹ کر اشرافی طرز کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو کر رہے۔ 

اس انقلاب کے بعد میکاولی کا خیال تھا کہ وہ اپنے سرکاری عہدے پر بدستور برقرار رہے گا کیونکہ وہ خود کو ایک مستقل شہری ملازم (سول سرونٹ) تصور کرتا تھا۔ لیکن میڈیچیوں کو ساڈرینی خاندان والوں سے گہرے تعلقات کا بخوبی علم تھا چنانچہ اقتدار سنبھالنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی انہوں نے اس کی وفاداری اور غیر جانبداری کو مشکوک سمجھتے ہوئے اسے اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ پھر اس کے اوپر ایک سیاسی سازش میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا اور کچھ دنوں اسے قید و بند کی سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ آخرکار وہ بری کر دیا گیا۔ 1513ء میں میڈیچیوں کے اقتدار کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب ایک میڈیچی یعنی لیو دہم، جولیس دوم کا جانشین ہوا۔ 1513ء سے 1526ء تک میکاولی نے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی اور اس کا فلورنس کی حکومت و سیاست سے کوئی تعلق نہ رہا۔ وہ اپنے حال زار سے بہت کبیدہ خاطر تھا۔

اس نے محسوس کیا کہ اسے دنیا میں بہت کچھ کرنا ہے لہٰذا اسے سابق حکمرانوں کے ساتھ دوستی کا خمیازہ نہیں بھگتنا چاہیے۔ اسے اپنی سیاسی جلاوطنی سے اس قدر کوفت تھی کہ اس نے اپنے سیاسی عہدہ کی بحالی کے لیے ان تھک کوشش شروع کر دی اور چاپلوسی اور خوشامد کے ذریعہ میڈیچیوں کو اپنی لیاقت اور انتظامی صلاحیت کا قائل کرنے میں لگا رہا۔ ان کوششوں کے ساتھ میکاولی نے وقت گزاری کے لیے ادبی اور علمی مشغلوں کا بھی سہارا لیا۔ دوران ملازمت اس کے ذہن میں ایک ایسی کتاب لکھنے کا خیال پیدا ہوا جس میں وہ سیاسی اقتدار کے حصول اور اس کو برقرار رکھنے کے اصولوں سے بحث کرے۔ سیزر بورجیا کے دربار میں اگرچہ اسے ایک مختصر مدت کے لیے حاضر ہونے کا موقع ملا تھا لیکن اسی عرصہ میں وہ اس جواں سال سیزر کی اپنے مقاصد کو نہایت بردباری اور زیرکی سے حاصل کرنے کی لیاقت کا مداح ہو گیا تھا۔ اور اس نے رائے قائم کی کہ دوسرے حکمرانوں کے بالکل برعکس سیزر بخوبی جانتا تھا کہ طاقت کو کس موقع پر استعمال کرنا چاہیے اور رعایا کی خوشنودی کب حاصل کرنی چاہیے۔ 

جلاوطنی کے دوران اس کے غوروفکر کا نتیجہ ’’حکمران‘‘ (دی پرنس) اور ’’مقالات‘‘ کی شکل میں نکلا۔ ان تصانیف میں اس نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ مختلف حکومتوں کو مختلف سماجی اور اخلاقی حالات کے تحت کس طرح کام کرنا چاہیے۔ دریں اثنا میکاولی کی میڈیچیوں کو رام کرنے کی کوشش کچھ بارآور ہوئی۔ کیونکہ انہوں نے خوش ہو کر اسے "فلورنس کی تاریخ" لکھنے کے کام پر مامور کر دیا۔ اس تصنیف میں میکاولی کو خود اپنے شہر کی سیاست کے تجزیہ میں اپنے ذاتی نظریات کے اطلاق کا موقع ملا۔ اس تاریخ کا لب لباب یہ ہے کہ سیاست میں چرچ اور پوپ کی مداخلت کے سبب اطالیہ کی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پاپاؤں نے اپنے اقتدار اور اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر غیرممالک کو مداخلت کی دعوت دے کر اطالیہ کو سیاسی انتشار اور طوائف الملوکی کی لعنتوں سے دوچار کیا۔ اپنی پوزیشن اور اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے وہ اس تحریک اور ہر اس حکمران کے مخالف رہے جس کا نصب العین اطالیہ کا قومی اتحاد اور سیاسی آزادی تھا۔ 

رسالہ ’’فن جنگ‘‘ 1520ء میں اس نے حرب و ضرب کے جملہ مسائل سے بحث کی اور انہیں خیالات کا اعادہ کیا جن کا اظہار وہ ’’حکمران‘‘ میں کر چکا تھا یعنی اپنے ملک کی حفاظت ہر شہری کا فریضہ ہے۔ کرائے کے سپاہی بیکار ہوتے ہیں اور خطرناک بھی۔ اس کے علاوہ میکاولی نے ’’مندراگولا‘‘ کے عنوان سے ایک منظوم مزاحیہ ڈرامہ بھی سپرد قلم کیا جس میں سولہویں صدی کے اطالیہ کی سماجی زندگی اور اخلاق و کردار کی خامیوں کا نہایت کامیاب نقشہ پیش کیا گیا ہے۔1521ء میں جب اس نے محسوس کیا کہ میڈیچی اس سے خوش نظر آتے ہیں تو اس نے اس موقع سے پورا فائدہ اٹھایا۔ 

کارڈنل گیولیوڈی میڈیچی (مستقبل کا پوپ کلیمنٹ ہفتم) نے پراٹیکا کی ’’مجلس ہشت سری‘‘ سے یہ سفارش کی کہ فرانسسکن پادریوں کے اجتماع عام میں سرکاری نمائندہ کے طور پر میکاولی کو بھیجا جائے۔ چونکہ میکاولی پادریوں کا سخت مخالف تھا لہٰذا اولاً اس نے اس مشن کا مذاق اڑایا لیکن پھر اس توقع میں اسے قبول کر لیا کہ شاید یہ مشن اس کے لیے سیاسی عہدے کی بحالی کا پیش خیمہ بن جائے۔ 1526ء کے موسم بہار تک میڈیچی اس کے کاموں سے اس قدر مطمئن ہو چکے تھے کہ انہوں نے بالآخر اسے ’’شہر کی فصیلوں کے نگہبانوں‘‘ کے سیکریٹری کا اہم منصب عطا کیا۔ بعد ازاں روم کے ہونے والے سقوط کا فلورنس پر اثر ہوا۔ نئی حکومت نے اسے عہدے سے برطرف کر دیا۔ وہ 22 جون 1527ء کو اس دنیا سے چل بسا۔

سید انوارالحق


 

Post a Comment

0 Comments