Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی

وہ ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی کہہ دیا تھا 

فکر مر جائے تو پھر جون کا ماتم کرنا

ہم جو زندہ ہیں تو پھر جون کی برسی کیسی 

 جون ایلیا 14 دسمبر 1931 کو امروہہ ریاست اُتر پردیش کے ایک نامور خاندان علامہ شفیق حسن ایلیا کے یہاں پیدا ہوئے۔ آپ ادب اور فن کے ماہر سید شفیق حسن ایلیا کے بیٹے تھےاور آپ کو بھی اپنے فن سے گہرا لگائو تھا۔ جون ایلیا نےابتدائی تعلیم اپنے محلے کی مسجد سے حاصل کی ۔ عربی کی تعلیم دیوبند سے حاصل کی اور عربی کی متعدد کتابوں کی اشاعت کا اعلان کیا تا ہم یہ تراجم اُ ن کی زندگی میں شائع نا ہو سکیں۔ آپ کا انوکھا اندازِ تحریر اور بیاں ہی آپ کی مختلف شناخت بنا۔ 

خود جون ایلیا کے بقول وہ عربی، فارسی، عبرانی اور دیگر کئی زبانو ں پر عبور رکھتے تھے۔ جون ایلیا پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اُن کے دوسرے بھائیوں میں رئیس امروہی تھے جو خود بہت بڑے شاعر، کالم نگار اور مصنف تھے۔ ان کے ایک بھائی سید محمد تقی مشہور صحافی تھے اور فلسفے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ اُردو میں ڈائجسٹ شروع کرنے والے ابتدائی لوگوں میں سے تھے۔ انہوں نے طویل عرصے تک ’عالمی ڈائجسٹ‘ کی ادارت بھی سنبھالی۔ اُنہیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا۔

وہ عربی کی بے پناہ صلاحیت رکھنے والے مترجم بھی تھے اور اُنہوں نے ’کتاب التواسین ‘ سمیت متعدد تصانیف کے ترجمے کئے جو اُن کی زندگی میں شائع نہ ہو سکے۔ اُن کی شاعری کا دوسرا مجموعہ’ یعنی‘ بھی اُن کی زندگی میں سامنے نہ آ سکا۔ اگرچہ اُن کے پہلے مجموعے ’’شاید‘‘ کے چند سالوں میں متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ اُنہوں نے اپنا پہلا شعر محض آٹھ سال کی عمر میں لکھا اور اپنی کتاب ’شاید‘ کے پیشِ لفظ میں قلم طراز ہیں۔ ’’میری عمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے اہم اور ماجرا پرور سال تھا۔ اس سال میری زندگی کے دو اہم واقعے پیش آئے۔ پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا یعنی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو گیا، دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں نے شعر کہا۔

’’چاہ میں اُس کی طمانچے کھائے ہیں 

دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی‘‘

جون ایلیا لڑکپن میں بہت حساس تھے۔ اُن دنوں اُن کی کل توجہ کا مرکز ایک خیالی محبوب کردار صوفیہ تھی اور اُن کے غصہ کا نشانہ متحدہ ہندستان کا قابض انگریز تھے۔ وہ ابتدائی مسلم دور کو ڈرامائی انداز میں دکھاتے تھے جس وجہ سے اُن کے اسلامی تاریخ کے علم کے بہت سے مداح تھے۔ حضرت علیؓ کی ذاتِ مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی ۔ اُنہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت محارت حاصل کی تھی، اپنی جوانی میں جون ایلیا کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتے کے طور پر قبول کر لیا۔ جون ایلیانے کیا خوب کہا کہ

’’میں بھی بہت عجیب ہوں،اتنا عجیب ہوں کہ بس 

 خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں‘‘

جون ایلیا نے قیام پاکستان کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے جس وجہ سے اُنہیں وسیع مداح اور پذیرائی نصیب ہوئی۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ’ شاید‘ اُس وقت شائع ہوا جب اُن کی عمر ساٹھ سال تھی۔ نیاز مندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیشِ لفظ اُنہوں نے ان حالات اور ثقافت کا گہرائی سے جائزہ لیا جس میں رہ کر اُنہیں اپنے خیالات کے اِظہار کا موقع ملا۔ اُن کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’’یعنی‘‘ اُن کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان ’’گمان‘‘ 2004ء میں شائع ہوا۔ جون ایلیا مجموئی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند تھے۔

جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کی دوسری مصروفیات میں بھی مشغول رہے لیکن اُن کے تراجم اور نثری تحریریں بہت آسانی سے دستیاب نہیں۔ مغربی ادب ، اسلامی سائنس، فلسفہ، منطق، اسلامی صوفی روایات، اسلامی تاریخ اور واقعہ کربلا پر جون ایلیا کا علم کسی سے کم نہ تھا۔ اس علم کا نچوڑ اُنہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا تاکہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کر سکیں ۔جون ایلیا ایک ادبی رسالے ’’انشاء‘‘ سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں اُن کی ملاقات اُردو کی ایک اور انتھک مصنفہ حنا سے ہوئی جس سے اُنہوں نے شادی کر لی۔ ان کے بچوں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہیں۔ بعد ازاں یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بعد تنہائی کی وجہ سے اِن کی صحت خراب ہو گئی اور آپ اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کراچی کے سخی حسن قبرستان میں مدفن ہیں۔

عمران اسماعیل

بشکریہ روزنامہ جنگ
 

Post a Comment

0 Comments