ہم تقریر کرنے سے کتراتے ہیں بلکہ مشاعرہ بھی اسی باعث نہیں پڑھتے کہ شعر ارشاد کرانے سے پہلے شاعر کا تقریر کرنا اب قریب قریب آداب میں داخل ہو گیا ہے۔ یہ بات نہیں کہ ہم تقریر نہیں کر سکتے۔ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ لیکن اس کے لیے ذرا اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو یہی کہ ہماری ٹانگوں کو کسی ستون یا کرسی کے پائے سے کس کر باندھنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے دوسرے اعضائے رئیسہ کی طرح یہ بھی ایسی خدا ترس واقع ہوئی ہیں کہ جہاں تقریر کا موقع آیا تھر تھر کانپنے لگیں۔ نرم دلی کے باعث آواز میں بھی رقت آ جاتی ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ اب روئے کہ تب روئے۔ دوسری وجہ یہ کہ ہمیں دلائل پر قابو نہیں رہتا۔ دلائل ہمارے ذہن میں ایسے با افراط ہوتے ہیں کہ لب تک آنے کے لیے ایک دوسرے پر پلے پڑتے ہیں۔ بعض تو موقع محل بھی نہیں دیکھتے اور بلا سیاق و سباق وارد ہو جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کئی ایک نے بیک وقت ہماری زبان پر آنے کی کوشش کی تو ایک گچھا سا بن کر ہمارے حلق میں اٹک گئے۔ ایسے میں سطحی نظروں والوں کو ہماری تقریر اگر الجھی ہوئی معلوم ہو تو وہ قابل معافی ہے۔ حلق تر رکھنے کے لیے ہمیں پانی بار بار پینا پڑتا ہے۔ پیتے تو اور لوگ بھی ہیں، لیکن ہمیں اپنی ضرورت کے پیش نظر منتظمین جلسہ سے گزارش کرنی پڑتی ہے کہ اسٹیج پر نلکا لگا دیا جائے۔ اب کتنے لوگ ہیں جو ایسا اہتمام کر سکیں۔
ابھی پچھلے دنوں ایسا اتفاق ہوا کہ بزم تاریخ والوں نے ایک مباحثہ کرایا۔ موضوع ایسا تھا کہ ہمیں بے اختیار تقریر کرنے کی خواہش ہوئی۔ ہم نے اس خواہش کا اظہار کیا تو سیکریٹری صاحب بولے۔ ’’آپ کا تقریر کرنا ہمارے لیے فخر کا باعث ہوتا لیکن کیا کریں، کے ڈی اے والے نہیں مانتے۔ کہتے ہیں شہر میں ویسے ہی پانی کی قلت ہے۔‘‘ خدا جانے ہمارے تقریر نہ کرنے کی شہرت ایک مقامی کالج والوں تک کیسے پہنچ گئی کہ انہوں نے ہمیں ایک مباحثے کا جج بنا دیا۔ ہم نے بہت غور کیا کہ ہم تو بولنے سے قاصر رہتے ہیں۔
ججی کیا کریں گے۔ جواب ملا ابھی پچھلے دنوں فلاں کالج والوں نے بھی ایک مشاعرے کی صدارت ایک ایسے صاحب سے کرائی جو شعر کہنا تو درکنار ایک مصرع بھی موزوں نہیں پڑھ سکتے۔ اس پر ہم لاجواب ہو گئے۔ دلائل ان لوگوں کے پاس اور بھی تھے لیکن اندیشہ پیدا ہوا کہ جوں جوں وہ سامنے آئیں گے ہمارا ازالہ حیثیت عرفی ہی ہو گا۔ نیک نامی کا کوئی امکان نہیں۔ ہم نے کہا اچھی بات ہے لیکن ایک بات کی ضمانت دیجیے کہ فیصلے کے بعد مقابلے میں شریک ہونے والے اور انعام نہ پانے والے ہمیں لتاڑیں گے نہیں۔
کیونکہ ایک بار تھیوسوفیکل ہال کی چھت پر ہم نے تقریر کے ایک مقابلے میں منصفی کی تھی۔ ایک صاحبہ نے جن کے سکول کو انعام نہ ملا، آنکھیں بند کر کے اور منہ کھول کر ایسی تقریر کی کہ اگر وہ ہماری شان میں نہ ہوتی تو ہم پہلا انعام ان ہی کو دے دیتے۔ اس موقع پر ایک صاحبزادے کا ردعمل بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ ان کو انعام نہ ملا تو مٹھیاں بھینچ کر بولے۔ ’’اب دیکھوں گا آپ کیسے جیکب لائن سے گزرتے ہیں۔ روز چلے آ رہے ہیں ترکی ٹوپی لگائے قوالی سننے۔‘‘ جن لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں تصوف سے شغف کم ہو گیا ہے وہ غلطی پر ہیں۔ اب ہم قوالوں کو اپنے گھر بلا لیتے ہیں۔
ہمیں سکول سے نکلے (خود نکلے تھے، نکالے نہیں گئے) اتنے دن ہو گئے ہیں کہ کچھ اندازہ نہ تھا کہ زبان اردو کتنی ترقی کر گئی ہے۔ ہم پرانے مولویوں سے پڑھے تھے جو لب سڑک اور فوق البھڑک وغیرہ تک کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ادب اور صحافت کے کوچے میں مولانا چراغ حسن حسرت مرحوم ایسے سخت گیروں سے پالا پڑا جنہوں نے ایک افسانہ نگار کی عظمت کو محض اس لیے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس نے زور بیان میں ہیرو کی زبان سے یہ کہلوا دیا تھا کہ ’’سلمیٰ میرا پیار پہاڑ کی طرح اٹل ہے اور سمندر کی طرح پایاب ہے۔‘‘ ایک اور مصنف پر وہ عمر بھر خفا رہے کہ اس نے روانی میں لکھ دیا تھا کہ ’’اس آگ نے مجھے جلا کر خس و خاشاک بنا دیا ہے۔‘‘
الحمداللہ کہ آزادی کے بعد سے جہاں انگریزوں سے چھٹکارہ ملا، بات بات پر گرفت کرنے والوں اور تلفظ اور محاوروں پر سند مانگنے والوں کا زور بھی ٹوٹا۔ آج کل کے اساتذہ اور طلبہ کی وسیع الخیالی کا اندازہ ہمیں اس روز کی تقریریں سن کر ہوا، ایک صاحب نے تقریر کا آغاز ہی اس جملے سے کیا کہ’’جن لوگوں کی زیرنگرانی میں یہ مباحثہ ہو رہا ہے، وہ مستحق تبریک ہیں۔‘‘ ہمارے زمانے میں یا تو زیر نگرانی کہتے تھے یا نگرانی میں، غور کرنے پر زیرنگرانی میں، کہنے کی حکمت کھلی، یہ کوئی تقریر کوئی فارسی خواں سن رہا ہو تب بھی سمجھ جائے گا اور فارسی سے نابلد ٹھیٹ اردو بولنے والے کو بھی مجال اعتراض نہ ہو گا۔ ایک طالب علم تھیں، وہ صدر گرامی قدر گرام کے نیچے بھی زیر ڈالتی گئی تھیں۔
0 Comments