رمزیت، تہہ داری اور مدہم لہجہ راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری کا خاصہ ہے۔ اگرچہ بیدی کا شمار ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر انور سدید کی رائے میں: ’’یوں بیدی کا افسانہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے لیکن ترقی پسندی کے واضح مقاصد کی تبلیغ نہیں کرتا‘‘۔ تاہم بیدی ترقی پسند تحریک کے فعال رکن رہے۔ بیدی کے افسانوں میں اپنی زمین سے محبت کا عنصر نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ انہوں نے آزادی سے قبل لکھنا شروع کیا اور برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد بھی اُردو افسانوی ادب میں گراں قدر اضافہ کیا نیز ناول ’’ایک چادر میلی سی‘‘ تحریر کر کے شہرت دوام حاصل کر لی۔ ۱۹۴۷ء سے قبل بیدی کے دو افسانوی مجموعے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے تھے: ۱۔دانہ و دوام (۱۹۳۶ئ)، ۲۔ گرہن (۱۹۴۲ئ) بیدی روزمرہ ز ندگی کے عام واقعات سے اپنے افسانوں کا مواد کشید کرتے ہیں۔
ان کے باریک بین مشاہدے کے باعث اندازِ بیان میں تلخی کا آجانا بالکل فطری ہے۔ انسانی فطرت کی کج روی، اس کے تناقصات اور غریب طبقے کے اقتصادی جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی استحصال نے بیدی کی طنز نگاری کی فطری صلاحیت کو ناصرف متحرک کیا بلکہ اسے چمکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی رائے میں: ’’بیدی خاص طور پر طنز نگار نہیں ہیں۔ مگر جو شخص اپنے گرد و پیش کی زندگی اور عام انسانوں کے حالات اور جذبات و احساسات کے زیرو بم کی موقع نگاری کرے، وہ زندگی ا ور انسانی فطرت کے تضاد کو نمایاں کرنے کے لیے طنز جیسے تیکھے ، موثر اور نوک دار حربے سے کام لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ بیدی کے افسانوں میں طنز کی زیریں لہر موجود ہوتی ہے لیکن یہ طنز اور احتجاج دبا دبا سا ہے۔
اس میں تندی اور تیزی نہیں لیکن اس کا طنز اپنے ہدف پر پورا اترتا ہے۔ ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی رائے ملاحظہ فرمائیں: ’’بیدی نے سماجی زندگی کے بعض پہلوئوں پر طنزیہ نظر ڈالی ہے اور یہ نظر محض اشتراکی نقطۂ نظر کی پیداوار نہیں جس کے تحت آدمی قنوطی ہو جاتا ہے ا ور ہرچیز کو خواہ مخواہ استہزائیہ انداز سے دیکھنے لگتا ہے بلکہ بیدی کے ہاں انسانیت اور ہمدردی کا احساس موجود ہے۔ بیدی کے ہاں ایک دھیمی مسکراہٹ ہے اور طنز کا ایک دبا دبا سا احساس ہے لیکن ان کے ہاں طنز و مزاح اس طرح دکھائی نہیں دیتے جس طرح وہ بعض ترقی پسند افسانہ نگاروں مثلاً منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر یا جلیس کے ہاں ملتے ہیں‘‘۔ ۱۹۴۷ء تک بیدی کے دونوں افسانوی مجموعوں کا جائزہ لینے سے ڈاکٹر رئوف پاریکھ کی رائے برحق محسوس ہوتی ہے۔
بیدی کے افسانوں میں طنز اور مزاح کی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ انہوں نے معاشرے کی طبقاتی تقسیم، ریا کاری فریب اور سماجی ڈھانچے پر طنز کے کاری وار کیے ہیں۔ افسانہ ’’من کی من میں‘‘ سے سماج پر طنز کی مثال پیش کی جاتی ہے: ’’سماج میں اتنی دیا کہاں کہ جس چیز کو وہ خود دینے سے ہچکچاتا ہے اپنے کسی فرد کو دیتا دیکھے‘‘۔ بیدی کے تمام افسانے سماج کی ناانصافیوں، بوسیدہ اقدار، ریاکاری طبقاتی نظام کے خلاف احتجاج ہیں۔ اصغر علی کی رائے ملاحظہ فرمائیں: ’’بیدی کے یہاں گمان اور تشکیک کے درمیان تنائو احتجاج کی جگہ اکثر تیکھے طنز کی شکل اختیار کرتا ہے‘‘۔
اس تیکھے طنز کی عمدہ مثال افسانہ ’’حجام الہ آباد کے ‘‘ ہے یہ افسانہ شروع سے آخر تک ہندوستانی سماج پر تیکھا طنز ہے اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے: ’’ایک بڑھیا ہے، شہر کے گوالوں نے جس کی ممتا کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے اور بھرے بازار میں بیچ ڈالا۔ پیٹھ سے لگا ہوا اس کا پیٹ، سوکھی، مرگھلی ٹانگیں اور ٹھنٹ سے بازو ہیں جو دیکھنے میں اوپر اٹھ کر سورج بھگوان کو انجلی ارپت کر رہے ہیں لیکن اصل میں لپک لپک کر کیندی سرکار کے محکمہ خوراک کی جان کو رو رہے ہیں جیسے ہماری تصویر’’پاتھر پنچلی‘‘ بدیس پہنچتی ہے اور وہاں کے لوگوں نے بہت پسند کی ہے اسی طرح باہر کے لوگ اس بڑھیا کی تصویر دیکھ کر خوش ہوں۔ فوٹو گرافی میں دنیا کا سب سے بڑا انعام اسے ملے اور دنیا بھرکے ملکوں سے غلے کے چہار کہیں اور جانے کی بجائے ہندوستان کی طرف پلٹ پڑیں‘‘۔
طنز کے ساتھ ساتھ اس افسانہ میں مزاح کی چاشنی بھی موجود ہے بیدی نے مذکورہ افسانے میں طنز و مزاح کو ایک ساتھ توازن کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ چند اقتباسات پیش خدمت ہیں : لفظی مزاح کی مثال ملاحظہ فرمائیں: ’’جب میں اسے شدھ انگریزی میں شٹ اپ کہتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے ’’بک اپ‘‘ کہہ رہا ہوں‘‘۔ بیدی لفظی الٹ پھیر سے بھی مزاح کی چاشنی کشید کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، مثال دیکھیے: ’’میں نوالے منہ میں ڈالتا ہوں، جو اُوپر سے نیچے کی بجائے نیچے سے اُوپر کو جانے لگتے ہیں‘‘۔ وارث علوی اس افسانے کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’حجام الہ آباد کے‘‘ میں اس عام آدمی کی کسمپرسی کی نہایت ہی طنزیہ اور مزاحیہ عکاسی کی گئی ہے جو خود کو حجاموں کے سامنے لاچار اور مجبور پاتا ہے اور حجام بھی اسے نہ پورا مونڈتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں بل کہ اس کی آدھی حجامت بنا کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنا دست نگر بنا لیتے ہیں‘‘۔
0 Comments