Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

منٹو کے ابتدائی حالاتِ زندگی

سعادت حسن منٹو کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اُن کا نام ذہن میں آتے ہی اردو ادب کے بہت توانا افسانہ نگار کا تصور ابھرتا ہے جو بے رحم حقیقت نگاری میں اپنی مثال آپ تھے۔ وہ نئے لب و لہجے کے ایسے توانا افسانہ نگار تھے کہ ان کے مخالفین کو بھی ان کی حیثیت کو ماننا پڑا۔ اور اس کی واضح مثال ان پر مقدمہ کرنے والے اُن ’مصلحین‘ کی ہے جو معاشرہ کو منٹو کی جنسی تخریب کاری سے بچانا چاہتے تھے۔ پروفیسرعلمدار بخاری اپنے ایم اے کے تحقیقی مقالہ میں کہتے ہیں کہ:۔ ’’منٹو یقینا ایک بڑی شخصیت تھا۔ ایسی شخصیت جو نرگس کے ہزاروں سال رونے پر گلشن میں ’’دیدہ ور‘‘ بن کر آتی ہے۔ اس ’بڑی شخصیت‘ کی اپنی زندگی ’واقعتاً‘ ایک ایسی ’’بڑی کہانی‘‘ بن کر سامنے آتی ہے جیسی کہ افسانہ نگار منٹو خود لکھنا چاہتا تھا۔‘‘

منٹو ضلع لدھیانہ کے ایک گائوں سمبرالہ میں ۱۱؍ مئی ۱۹۱۲ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام میاں غلام حسن تھا۔ جو منصف کے عہدے پر فائز تھے۔ منٹو کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔ منٹو کی والدہ سے انہوں نے شادی تب کی جب ان کی پہلی بیوی حیات تھیں اور اولاد جوان لیکن اس عورت کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ اپنے شوہر کی بے اعتنائی کا شکار رہی اور اس بے اعتنائی کی اذیت ناک زد میں کمسن سعادت بھی آیا۔ سعادت حسن منٹو کے بچپن کے دوست ابو سید قریشی ’’منٹو‘‘ میں کہتے ہیں:۔ ’’اُن کے والد منصف تھے۔ انہوں نے دو شادیاں کیں۔ سعادت کی والدہ، ان کی دوسری بیوی تھیں۔ منصف صاحب نے اپنی پہلی اہلیہ کی اولادوں کی تعلیم، تربیت پر اتنی توجہ کی کہ ان کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم اور ان کی دو اولادوں۔۔۔۔۔ سعادت اور اس کی بڑی بہن ناصرہ اقبال کے لیے کچھ باقی نہ بچا۔ تلخ یادوں کے سوا۔‘‘ 

ان کی بے اعتنائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ منٹو ان کی قید میں زیادہ شرارتی اور ضدی بچہ بن گئے اور انہوں نے منفی راستوں کی ترغیب حاصل کی۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ تعلیم حاصل کرے لیکن انہیں تو والد کی ضد میں ہر کام اُلٹ کرنا تھا۔ اس لیے اپنی ضد اور لاپروائی کے باعث وہ میٹرک میں تین بار فیل ہوئے۔ حالانکہ وہ اپنے والد سے ڈرتے بھی بہت زیادہ تھے۔ ان کے ڈرنے کا بیان منٹو کی بہن سے روایت کرتے ہوئے ابوسعید قریشی کہتے ہیں:۔ ’’۔۔۔۔۔ سعادت کی بہن بتا رہی تھیں۔ جان خطا ہوتی تھی اس کی میاں جی کے ڈر سے۔ پتنگ اُڑا رہا تھا ایک روز کوٹھے پر میاں جی آگئے۔ اتنے میں باہر سے ہی چھت پر کود پڑا برابر کے کوٹھے پر۔ لیکن کیا مجال ہے جو ’سی‘ تک کی ہو۔‘‘ باپ جیسا بھی ہو اس کی زندگی اولاد کے لیے جذباتی سہارا ہوتی ہے لیکن بچپن میں ہی ان کے والد کی وفات ہو گئی۔ خاندان والوں کا رویہ پہلے بھی ان کی والدہ کے ساتھ درست نہیں تھا۔ رہی سہی کسر اس سانحے نے پوری کر دی اور سعادت حسن منٹو بھی اس رویہ کا ہدف بنا۔

منٹو جو اس وقت تک سعادت حسن تھا اپنے خاندان والوں کے رویے سے تنگ آکر گھر سے باہر اپنے لیے پیار اور توجہ تلاش کرنے لگا۔ اسی تلاش میں منٹو نے سکون کے حصول کے لیے شراب کی لَت لگا لی لیکن یہ تلاش انہیں ’’باری علیگ‘‘ تک لے گئی۔ یہ مارچ ۱۹۳۳ء کی بات ہے۔ ’’منٹو کا پیر و مرشد باری علیگ مارچ ۱۹۳۳ء میں امرتسر وارد ہوتا ہے اور اسی سال ستمبر میں واپس اپنے گھر لائل پور چلا جاتا ہے لیکن یہ چند مہینے اپنی ہنگامہ خیزی کے اعتبار سے سالوں پر محیط نظر آتے ہیں۔ باری میں بچوں کے ساتھ بچہ بن جانے کی بھرپور صلاحیت موجود تھی۔ اس لیے وہ اپنی تمام تر علمیت اور بزرگی کے باوجود سعادت اور اس کے حلقہ کے دوستوں سے گھل مل گیا۔ حتیٰ کہ ’’فری تھنکر‘‘ جیسی اوٹ پٹانگ تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔‘‘ سکول اور کالج میں سعادت حسین کو ’’ٹامی‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تعلیم سے دور بھاگنے والا اور اردو کے مضمون میں بار بار فیل ہونے والا یہ ضدی بچی وہ ہیرا تھا جس کی پہچان باری علیگ نامی جوہری نے کی اور سعادت کو عالمی ادب کے مطالعے کی طرف راغب کیا۔ اور ان کے کہنے پر ہی منٹو نے اپنی محدود علمی قابلیت کے باوجود دن رات محنت کر کے وکٹر ہیوگو کے ایک ناول (The Last days of condemned) کا ترجمہ ’’سرگزشتِ امیر‘‘ کے نام سے کر ڈالا۔

پھر روسی اور فرنسیسی ادب نمبر مرتب کر ڈالے۔ آسکروائلڈ کے ڈرامے ’’ویرا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ اسی دور میں منٹو نے باری علیگ کی ادارت میں نکلنے والے اخبار ’’خلق‘‘ میں فرضی نام ’’آدم‘‘ سے اپنا پہلا طبع زاد افسانہ ’’تماشہ‘‘ لکھا جو جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کے متعلق تھا۔ یہ ۱۹۳۴ء میں چھپا اور ۱۹۳۵ء میں منٹو کو ایک بار پھر تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا اور انہوں نے ایف۔اے کئے بغیر علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ انوار احمد اپنی کتاب ’’اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ‘‘ میں اس کی وجہ منٹو کے انقلابی نظریات کو بتاتے ہیں۔ جبکہ ابو سعید قریشی منٹو کی سوانح میں اس طرح بیان کرتے ہیں:۔ ’’سعادت کی صحت آئے دن بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ایکس رے کرنا ہو گا۔ اس کے لیے اسے دلی لے جانا پڑا۔ ایکس رے میں انہیں پھیپھڑوں پر دھبے دکھائی دئیے۔ یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے کہا دق ہے۔ سعادت کو یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔‘‘ 

شمائلہ حسین


Post a Comment

0 Comments