Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

جون ایلیا…ایک باغی شاعر : میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس

شاعری میں شعری طرزِ احساس اور جمالیاتی طرزِ احساس کو بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ جب جدید غزل کی بنیاد رکھی گئی تو ان دونوں لوازمات کے علاوہ ایک اور عنصر کا اضافہ کیا گیا اور وہ ہے جدید طرزِ احساس۔ جدید طرزِ احساس کا مطلب یہ ہے کہ شاعری کو معروضی صداقتوں سے الگ نہیں کرنا چاہئے اور اگر شاعر جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے تو وہ بددیانتی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خوبی کو بھی جدید شاعری کا حصہ بنایا گیا اور وہ ہے اختراع پسندی جسے انگریزی میں (Innovation) کہا جاتا ہے۔ 

اختراع پسندی ہر شاعر کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ ایسے شاعر بہت کم ہوتے ہیں جن کی شاعری میں اختراع پسندی پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی ایک شاعر تھے جون ایلیا۔ جون ایلیا نے زندگی بھی منفرد طریقے سے گزاری اور شاعری بھی منفرد انداز میں کی۔ یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی شاعری پر کسی اور شاعر کے اثرات ہیں یا ان کا اسلوب ان کا اپنا نہیں. وہ ہر لحاظ سے ایک منفرد اسلوب کے مالک ہیں۔ ان کی غزلوں کا ایک بنیادی وصف یہ ہے کہ ان کی چھوٹی بحر میں لکھے گئے اشعار بڑے اثر انگیز ہیں اور ان میں سے کئی غزلوں کو سہل ممتنع کی شاعری کہا جا سکتا ہے۔ سہلِ ممتنع میں شعر کہنا بہرحال آسان نہیں ہوتا۔ اس فن میں عبدالحمید عدم‘ ساغر صدیقی اور ناصر کاظمی کو کمال حاصل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جون ایلیا کا بھی کوئی ثانی نہیں۔ 

یہ نابغہ روزگار شاعر نکتہ آفرینی کے فن میں بھی یدطولیٰ رکھتا ہے۔ اور پھر ایسے خیالات پیش کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جون ایلیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کی قوت متخیلہ حیرت انگیز ہے۔ 14 دسمبر 1931ء کو امروہہ (بھارت) میں پیدا ہونے والے جون ایلیا صرف شاعر ہی نہیں بلکہ فلسفی اور عالم بھی تھے۔ وہ رئیس امروہی اور محمد تقی کے بھائی تھے۔ جون ایلیا اردو‘ عربی‘ فارسی‘ انگریزی اور سنسکرت میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا غیر روایتی انداز تھا۔ ان کی جوانی کے زمانے میں ہی پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔

شروع شروع میں وہ قیام پاکستان کے مخالف تھے لیکن بعد میں انہوں نے قیام پاکستان کو قبول کر لیا۔ وہ 1957 میں پاکستان آ گئے۔ انہوں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کراچی میں قیام کریں گے۔ شاعر پیرزادہ قاسم کے بقول ’’جون ایلیا زبان کے بارے میں بہت محتاط تھے۔ ان کی زبان کی جڑیں کلاسیکی روایات میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ وہ نئے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ تمام زندگی آئیڈیل کی تلاش میں رہے لیکن جب وہ اپنی اس سعی میں ناکام رہے تو مایوسی کے سمندر میں ڈوب گئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ شاید انہوں نے اپنی ذہانت کو ضائع کر دیا۔ ان کے ذہن میں یہ تصور ایسے ہی جاگزیں نہیں ہو گیا بلکہ اس کے پیچھے بڑے توانا دلائل تھے۔

ان کی شادی صحافی اور ادیب زاہدہ حنا سے ہوئی تھی لیکن بعد میں ان میں علیحدگی ہو گئی۔ جون ایلیا نے ایک دفعہ کہا تھا کہ وہ سید خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے دیوبند مدرسہ سے بھی تعلیم حاصل کی لیکن اپنے آپ کو کسی مذہبی فرقے سے منسلک نہیں کیا۔ ان کے سیاسی خیالات پڑھ کر لگتا ہے کہ وہ کمیونزم سے متاثر تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو انارکسسٹ بھی کہا۔ اردو ادب کیلئے ان کی گرانقدر خدمات کے حوالے سے جون ا یلیا کو 8 نومبر 2000 کو تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’شاید‘ یعنی‘ گمان‘ لیکن اور گویا‘‘ شامل ہیں۔ انشائیوں اور مضامین پر مشتمل ان کا مجموعہ ’’فرنود‘‘ بھی منظر عام پر آیا۔ اس مجموعے کو خالد احمد انصاری نے شائع کیا۔ انہوں نے نثر بھی لکھی جس میں بیشتر تراجم شامل ہیں۔ اس حوالے سے بھی ان کا کام قابل تحسین ہے۔ وہ ایک اعلیٰ درجے کے مترجم تھے۔ نثر کے حوالے سے انہوں نے جو کتب تصنیف کیں ان میں ’’مسیح بغداد‘ حلاج‘ جو میٹریا‘ تواسین‘ اسافوجی‘ مسائل تجرید اور رسائل اخوان الصفا‘‘ شامل ہیں۔ 

ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان کو کئی نئے الفاظ دئیے۔ جون ایلیا کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں قطعات لکھنے کیلئے بھی کہا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ کچھ لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ جون ایلیا کو فلمی نغمہ نگاری کیلئے بھی کہا گیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ فلمی گیت نگاری کیلئے وہ اپنے آپ کو موزوں خیال نہیں کرتے۔ اب ہم ذیل میں جون ایلیا کے کچھ اشعار پیش کر رہے ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ان کی شعری عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ 

آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکلا تھا 

جونہی دروازہ کھولا ہے اس کی خوشبو آئی ہے

 علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جائوں

 وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

 جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

 ہم نے وہ زندگی گزاری ہے 

کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی

 تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا 

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

 روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے 

بہت نزدیک آتے جا رہے ہو

 بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا؟ 

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ

 بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا 

ایک ہی شخص تھا جہاں میں کیا؟ 

رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب

 خون تھوکوں تو واہ وا کیجئے

 8 نومبر 2002ء کو یہ منفرد شاعر اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ ان کا نام اردو شاعری کی تاریخ میں زندہ رہے گا۔


 عبدالحفیظ ظفرؔ


Post a Comment

0 Comments