Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کتاب دوستی کم ہونے کا تاثر درست نہیں

کتاب میری پہلی محبت ہے، میرے بیشتر دوستوں کی بھی اور میرے اکثر شاگردوں کی بھی ، دوستیاں بھی انہی سے ہوئیں جو کتاب پڑھتے تھے اور کتاب کا تحفہ دیتے تھے ، یونیورسٹی کے دنوں میں ماہنامہ ہمقدم کی ادارت کے بعد میری زندگی کا پہلا شاندار کام بھی کتابوں کی اشاعت کے ایک ادارے کا انچارج بننا ہی تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے ڈگری مکمل ہوئی اور پہلی سرکاری نوکری کے لئے یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہورمیں افسر تعلقات عامہ کے لئے انتخاب ہوا تو میں اس کی بجائے کتابوں کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے فیروز سنز میں مدیر بن گیا۔

میری زندگی کی سب سے زیادہ خوشی دینے والی دوستیاں اور تعلق یہیں سے بننے کا آغاز ہوا۔ جناب اشفاق احمد ، بانو آپا، مستنصر حسین تارڑ، یونس جاوید ، سید ضمیرجعفری ، ممتاز مفتی، امجد اسلام امجد ، اے حمید، میرزاادیب، طارق اسماعیل ساگر، بشری ٰرحمان ،رضیہ بٹ، سائرہ ہاشمی ،الطاف فاطمہ ، جناب مختار مسعود، جناب مجیب الرحمن شامی ، ڈاکٹر انور سدید، تنویر قیصر شاہد، عطاالحق قاسمی ، پروفیسر عنایت علی خان ، انور مسعود، مظفر محمد علی ، وصی شاہ اورڈاکٹر عبدالغنی فاروق کیسے کیسے قیمتی اور نایاب لوگ ان کتابوں نے ملوائے، بلکہ عطا کئے۔ ٹرینر بننے سے قبل میری پہچان ایک افسانہ نگار ،کہانی کار اور مدیر کی ہی تھی، پھول کے تیرہ برس ہوں یا قومی ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے قیمتی سال، سبھی کا تعلق لکھنے سے ہی تھا۔ میرے بیشتر اعزازات چاہے یونیسیف ایوارڈز ہوں یا دعوۃ اکیڈیمی اور نیشنل بک فاونڈیشن ایوارڈ زسبھی لکھنے سے ہی متعلق رہے ۔

حالیہ یوبی ایل ایکسیلینس ایوارڈ بھی ایک کتاب کا ہی مرہون منت تھا۔ کتاب نے ہی خرم مراد صاحب سے ملوایا اور اسی نے جیلانی بی اے سے متعارف کروایا۔ کتاب نے ہی زندگی کی بڑی حیرتوں سے دوچار کیا خصوصاَ اس روز جب ایک دوست کے ہاں مصطفیٰ ٹاؤن اس کے بچے کی پیدائش کی مبارک باد دینے گئے ،وہ اور اس کی بیوی بچہ سنبھالنے لگے اور میں ان کے ڈرائنگ روم میں الماری میں سجی کتابیں دیکھنے لگا تو گیارہ کتابیں ایسی ملیں جو میری جانی پہچانی تھیں اور ان پر میرے دستخط موجود تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے سے میری عادت ہے کہ کتاب خرید کر پہلا کام یہی کرتا ہوں ،وہاں سے واپسی پر ان گیارہ کتابوں کے بوجھ کے ساتھ سیڑھیاں اترتے د یکھ کر میری اہلیہ نے کھلکھلا کربس اتنا ہی کہا یوں لگ رہا ہے جیسے آپ نے اپنی گود میں تازہ پھول اٹھا رکھے ہوں ۔

ویسے اپنی دوست اور کولیگ آمنہ کی شادی پر اس کے گھر جاکر بھی ایسی ہی کیفیت ہوئی تھی اور مروت میں ان کتابوں کو وہاں چھوڑنا ایسے ہی لگ رہا تھا جیسے اپنے گھر سے آئی ڈولی وہاں چھوڑ دی ہو۔ گذشتہ برس کتاب کے دن اسلام آباد میں نیشل بک فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے پروگرام میں اتنی دیر کتابوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک لمحے کو بھی ایسے نہیں لگا کہ میں اپنی ذاتی محبتوں کے قصے سنا رہا ہوں حالانکہ معاملہ اس سے بھی سوا تھا جبھی تو آفاق کے نئے سربراہ جناب محمد خلیق نے کہا ’’ میرے دل میں آیا تھا کہ تمہارا ماتھا چوم لوں ۔ ‘‘ممتاز ٹرینرجناب شاہد وارثی نے اپنی باری پر یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ میں اپنا وقت بھی انہی کو دیتا ہوں کہ یہ کتاب دوستی کی باتیں اسی طرح کرتے رہیں۔

کیا میں اس لمحے کتاب سے دوستی کی باتوں کے سحرمیں تھا اور عملاََ شہد کا چھتہ بنا برسوں سے جمع قطرہ قطرہ اس کتابی محبت کو اس مجمعے کے ساتھ بانٹ رہا تھا جو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی وجہ سے پاک چائنہ سنٹر کے اس یخ بستہ ہال میں جمع تھا۔ ایک زمانہ تھا کالم اس لئے پڑھے اور پسند کئے جاتے تھے کہ کالم نگار دنیا کی بہترین کتابوں کا خزانہ اپنے قارئین کے ساتھ بانٹنا پسند کرتے تھے ، پھر رواج بدلا، صرف وہ باتیں اور واقعات سامنے لائے جانے لگے جو لکھنے والے کی بات کی تائید کرتے، اب کم ہی کوئی اس تکلف میں پڑتا ہے کہ کسی نئی کتاب سے ملوائے، اس کے مصنف کی باتیں اور نقطہ نگاہ بتائے ، قاری کی تربیت اور تسکین دونوں ایک ساتھ ہو جاتی تھی ۔

کہیں بیٹھے ہوں تو عام خیال یہی ہوتا ہے کہ کتاب سے لوگوں کی محبت کم ہوئی ہے ۔ تین روز جوہر ٹاؤن میں واقع ایکسپو سنٹر میں لگے بک فیئر میں لوگوں کی آمد ورفت دیکھ کر تو ایسا بالکل نہیں لگا۔ بڑے سے ہال میں لگے چھوٹے بڑے سٹالز میں سجی کتابوں کو دیکھنے اور لینے جوق در جوق آرہے تھے ، یہ اس بات کی گواہی تھی کہ لوگوں کی کتاب سے محبت اسی طرح قائم ہے اور اُس میں کمی نہیں ہوئی۔ کچھ بچے اپنے والدین کو لے کر آئے تھے اور کچھ والدین اپنے بچوں کو لے کر آئے تھے۔ کتاب سے محبت کا یہ سفر ایسا ہی چلتا ہے، کیونکہ یہی وہ محبت ہے جو دل ہی نہیں دن بھی بدل ڈالتی ہے ۔ اس بار ایک نیا کام یہ ہوا کہ ہر روز نئی کتابوں کی تقریبات رونمائی کے لئے ایک ہال بھی دستیاب تھا ، تین تقریبات تو میں نے بھگتائیں، ایک راحت عائشہ کی کتاب تھی ،آ م کا بھوت ،جس میں نذیر انبالوی کے علاوہ ابن صفی کے بڑے صاحبزادے سے بھی ملاقات ہوئی جو ایک بڑی کمپنی میں اکاوئنٹس دیکھتے ہیں، کیا عمدہ بولے ، دوسری کتاب راکعہ رضا کی کہانیوں کا مجموعہ تھا آخری سیڑھی، اس میں علامہ اقبال کے پوتے منیب اقبال بھی آئے اور اردوکتب کی اشاعت اور پذیرائی پر خوشی کا اظہار کیا۔ تیسری کتاب رابعہ بک پبلشرز کے ابوالحسن طارق کی تھی جو انہوں نے حج کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے ایک راہنما کتاب کے طور پر تیار کی ہے، اس میں مہمان مقررین بھی کافی تھے ۔

مانا جاتا ہے کہ کتاب زندگی کو آپ کے لیے کھول دیتی ہے۔ کتا ب آپ کے لیے دانش اور محبت کے راستے اور علم ، مرتبے اور عزت کے سارے دروازے کھول دیتی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہماری موجودہ سیاسی قیادت پر کتاب شناسی اور صاحب مطالعہ ہونے کی کوئی تہمت مشکل سے ہی لگائی جا سکتی ہے، چھوٹے میاں صاحب البتہ اشعار بروقت استعمال کرتے رہتے ہیں ، اپنے خان صاحب کتاب اور شعر دونوں ہی پڑھنے پر یقین نہیں رکھتے ، زرداری صاحب پر بھی یہ الزام مشکل سے ہی لگایا جا سکتا ہے ، سراج الحق صاحب کا شوق نہ بھی ہو انہیں جماعتی ڈسپلن اور ضرورت کے مطابق پڑھنا پڑتا ہے اسی لیے وہ دوران سفر بھی کتاب کے ساتھ دیکھے گئے ہیں ، فاروق ستار صاحب کی گفتگو سے تو کبھی نہیں لگا کہ کتاب سے کوئی دور پار کا تعلق رہا ہو گا، لیاقت بلوچ صاحب کو کتاب پڑھنے کا بہت عمدہ ذوق ہے ، مولانا فضل الرحمن اپنے تعلیمی دنوں کے بعد کسی کتاب کا ذکر کرتے نہیں دیکھے ، ہاں کئی برس قبل عرفان صدیقی صاحب کے کالموں کے مجموعے کی تقریب رونمائی میں پی سی میں وہ تشریف لائے، اپنی پارٹی میں زرداری صاحب نے تو شائد ہی کتاب پڑھنے کی خواہش پنپنے دی ہو ، ایک زمانے میں جب یوسف رضا گیلانی صاحب کی چاہ یوسف سے صدا آئی تھی تو مرحوم فہیم الزمان کی گفتگو ایک صاحب مطالعہ شخص کی نشاندہی کرتی رہی ، سیاسی قیادت درجہ اول کی ہو یا درجہ اول میں جانے اور شامل ہونے کی آرزو رکھنے والوں کی، ادب و کتاب سے دوستی اور تعلق کے بنا قابل تقلید فہم اور دانش تک رسائی آسان نہیں ہو تی، کتاب ان ساری غلطیوں اور کوتاہیوں کی بھی آگاہی دیتی ہے جو تاریخ کے سفر میں جگہ جگہ ہوئی نظر آتی ہیں، اہل علم اور صاحبان مطالعہ کو ہم نے ہمیشہ نرم مزاج اور اعتدال کو اپنی شخصیت کا حصہ بناتے دیکھا ، وہ ایشوز میں رائے ضرور دیتے، مگر پارٹی بننے سے احتراز کرتے ، یہ الگ بات ہے کہ آج کے وہ چند کالم نگار جنہیں کتابوں سے علاقہ ہے، وہ اس شوق اور ہنر کو ننگی تلوار بنائے ہر موضوع اور مخالف پر یوں استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے کالم نگار نہ ہوں کسی پارٹی کے تلوار بازوں کے ہراول دستے کا حصہ ہوں ۔ کتاب دوستی اہل علم میں ہو اہل سیاست میں یا اہل ثقافت میں، توازن اور بے تعصبی سے سوچنے اور سمجھنے کے باعث ان کا ایک درجہ ہمیشہ بلند ہی رہتا دیکھا ہے ۔

اختر عباس
 

Post a Comment

0 Comments