Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کہاں گئے وہ بچوں کے شاعر اور ادیب ؟

ایک دور تھا جب ملک میں بچوں کے بے شمار جرائد شائع ہوتے تھے۔ ان میں کئی لوگ اپنی کہانیاں اور نظمیں شائع کراتے تھے۔ یہ جرائد بچوں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔ اس کے علاوہ اخبارات میں بھی ہفتے میں ایک بار بچوں کا صفحہ شائع کیا جاتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے کم ہوتے گئے۔ بچوں کے کئی جرائد بھی بند ہو گئے جن میں ’’کھلونا، غنچہ جگنو، بچوں کا ڈائجسٹ، بچوں کا گلشن، چندا ماموں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اب تو چند جرائد شائع ہوتے ہیں جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے۔ اسی طرح بچوں کے بڑے شاندار ناول لکھے گئے۔ 

بچوں کا سب سے بڑا ناول ’’عالی پر کیا گزری‘‘ تھا جس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے۔ اسے معروف ادیب عزیز اثری نے تحریر کیا تھا۔ اتنی شہرت کسی اور ناول کو نہیں ملی۔ اس کے بعد اگر کسی ناول کو بچوں نے پسند کیا تو اس کا نام تھا ’’میرا نام منگو ہے‘‘۔ اسے جبار توقیر نے تحریر کیا تھا۔ جبار توقیر کو یہ ناول لکھنے پر بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی اور ناول بھی بچوں میں بے حد مقبول ہوئے لیکن مندرجہ بالا ناولوں جیسی شہرت کسی کو حاصل نہ ہو سکی۔ بچوں کے دیگر مشہور ناولوں میں ’’محمود کی آپ بیتی‘‘، ’’خزانے کا راز‘‘، ’’چھونپڑی سے محل تک‘‘ اور کئی دوسرے ناول شامل ہیں۔ 

عزیز اثری اور جبار توقیر کے علاوہ محمد یونس حسرت کے ناولوں کو بھی بڑی پذیرائی ملی۔ اس دو ر میں کچھ جرائد ایسے تھے جو مافوق الفطرت کہانیاں شائع کرتے تھے۔ ان کے مالکان سمجھتے تھے کہ جِنوں اور پریوں کی کہانیاں بچے بہت پسند کرتے ہیں۔ اس لیے ان کہانیوں کو شائع کرنا بہت مناسب ہے۔ پھر مقبول جہانگیر کی امیر حمزہ کی سیریز شائع ہوئی اور ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آ گئیں۔ اس کے بعد اشتیاق احمد نے بچوں کا جاسوسی ادب تخلیق کیا۔ انہیں بچوں کا ابنِ صفی کہا جاتا ہے۔ ان کے جاسوسی ناول بہت مقبول ہوئے۔ ایک طویل عرصے تک ان کا طوطی بولتا رہا۔ پھر کچھ اشاعتی اداروں نے ایک نیا کام شروع کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے پاکٹ سائز کتابیں شائع کرنا شروع کر دیں۔ اس پاکٹ سائز کتاب کی قیمت 50 پیسے تھی۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا اور طویل عرصے تک یہ پاکٹ سائز کتب شائع ہوتی رہیں۔

مشہور ادیب اے حمید نے بھی بچوں کے لیے بہت اچھا لکھا۔ انہوں نے امبر، ناگ اور ماریا کے عنوان سے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کی کتابوں کو جلال انور مرحوم نے شائع کیا جو ان دنوں ’’مکتبہ اقرا‘‘ کے نام سے اشاعتی ادارے کے مالک تھے۔ جلال انور نے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کتابوں پر مشتمل کہانیاں بھی شائع کیں اور ہر کتاب کی قیمت دو روپے رکھی گئی۔ ان کی یہ کتب ایک لمبے عرصے تک بچوں کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ پھر آہستہ آہستہ بچوں کی کتب کی اشاعت کا سلسلہ کم ہوتا گیا اور اب شاذ ہی بچوں کا ادب دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب ذرا بچوں کی شاعری کے بارے میں بھی بات ہوجائے۔ بچوں کی نظموں کے شعری مجموعے بھی شائع ہوئے لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔

بچوں کے لیے نعتیں بھی کئی شعرا نے لکھیں۔ اور انہوں نے بڑا نام کمایا۔ بچوں کے جن شعرا نے گراں قدر کام کیا ان میں زاہد الحسن زاہد، افضال عاجز، امان اللہ نیر شوکت، افق دہلوی، غلام محی الدین نظر، طالب حسین طالب، اقبال نواز، قندیل ناصرہ، محمد احمد شاد، ظفر محمود انجم، سرور بجنوری اور کئی اور لوگ شامل ہیں۔ ان میں سے کئی افراد اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ زاہد الحسن زاہد مرحوم کے بارے میں بتانا ضروری ہے کہ وہ بچوں کے شاعر تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ایک بہت اچھے آرٹسٹ بھی تھے۔ وہ بچوں کے کئی جرائد میں تصاویر بناتے تھے جو کہانیوں کے عین مطابق ہوتی تھی۔

امان اللہ نیر شوکت بھی شاعر اور ادیب کے ساتھ ساتھ آرٹسٹ تھے۔ وہ بفضلِ خدا اب بھی حیات ہیں۔ وہ شروع شروع میں ’’بچوں کا ڈائجسٹ‘‘ کے معاون مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔ پھر انہوں نے بچوں کے لیے خود ایک جریدہ شائع کرنا شروع کیا جس کا نام تھا ’’بچوں کا گلشن‘‘۔ مذکورہ بالا جرائد میں سے اب کوئی بھی شاید شائع نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب بند ہو چکے ہیں۔ اب بچوں کے چند ایک جرائد شائع ہوتے ہیں اور ان میں نئے لکھنے والوں کی اچھی خاصی تعداد ملتی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب بچوں کا معیاری ادب تخلیق ہونا بند ہو گیا ہے۔ کہاں گئے وہ شاندار ادیب اور شاعر جو ایک زمانے میں بچوں کے ادب کی شان تھے۔ وہ رسائل و جرائد کہاں گئے جن کا بچے انتظار کیا کرتے تھے۔

بچوں کے ناول لکھنے والے غائب ہو گئے۔ بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھنے والے ادیب بھی مدت ہوئی نظر نہیں آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج سماجی قدریں بدل چکی ہیں۔ ادیبوں، شاعروں اور پبلشرز کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ ان کے نزدیک اب یہ منافع بخش کاروبار نہیں رہا۔ اب ہر کام کو تجارتی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ آج کل اگر بچوں کا معیاری ادب پڑھنے کو ملتا ہے تو وہ پرانے ادیبوں کا ہے جو اب بھی اسی لگن اور جذبے سے لکھتے ہیں جتنا کئی عشرے پہلے لکھتے تھے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عزیز اثری اور غلام محی الدین نظر جن مشہور اخبارات میں ’’بچوں کا صفحہ‘‘ کے انچارج کے طور پر کام کرتے تھے وہ اخبار بھی اپنے اس صفحے کی وجہ سے کافی پسند کیے جاتے تھے۔

ان دونوں نے ہمیشہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی اور وہ بڑی باقاعدگی سے ان کی کہانیاں اور نظمیں شائع کرتے رہے۔ طالب حسین طالب ’’کھلونا‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور انہوں نے بھی بچوں کا ادب تخلیق کرنے والے نئے لکھاریوں کو بہت مواقع دیئے لیکن اب نہ وہ رسائل، نہ وہ ناول، نہ وہ کہانیاں اور سب سے بڑھ کر نہ وہ بچوں کے شاندار ادیب اور شاعر موجود ہیں۔۔۔۔ کہاں گئے یہ سب لوگ؟ کہاں گئے؟

عبدالحفیظ ظفر


 

Post a Comment

0 Comments