Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

خط ِ کوفی

یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ عربی رسم الخط قبطیوں سے ماخوذ ہے اور یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ عربی رسم الخط کی جنم بھومی سرزمین حیرہ اور انبار دو قریب قریب مقام تھے اور ان کوفہ ان دونوں شہروں کے قریب، طلوع اسلام کے بعد 17ھ میں بسایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قبل از اسلام یہ خط ، خط عربی کہلاتا تھا۔ بعض روایات کے مطابق خط کوفی کے پہلے کاتبین مر مرہ بن مرہ، اسلم بن سدرہ اور عامر بن جدرہ کو کہا جاتا ہے۔ یہ وثوق سے کہنا کہ خط کوفی کا پہلا کاتب کون تھا، بڑا مشکل ہے۔ جسٹس امیر علی کے بقول انبار کے ایک شخص مور امیر بن مراسہ نے یہ فن ایجاد کیا ۔ یہ شخص انبار سے حیرہ آکر آباد ہو گیا اور یہاں سے ابو سفیان کے باپ حرب بن امیہ نے یہ فن سیکھا اور اسے مکہ میں آکر رواج دیا۔

چنانچہ حرب بن امیہ اور بشیر بن عبدالمالک سے فن خطاطی سیکھنے والے ابتدائی ناموں میں حضرت عمرؓ بن خطاب، حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت علیؓ بن ابی طالب ، طلحہ ؓ بن عبداﷲ کا نام بھی شامل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ فن خطاطی کو قرآن حکیم نے عروج تک لے جانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ابتدائی دور اسلام میں جب قرآن کی تدوین کے بعد اسے عام مسلمانوں تک پہنچانے کا عمل شروع ہوا تو جنگی فتوحات نے اسلام کا دائرہ کار وسیع کردیا تھا۔ قرآن کو پڑھنا ، لکھنا اور اسے پھیلانا ایک مقدس فریضہ سمجھا گیا۔

چنانچہ جہاں ایک طرف پڑھنے میں حسن قرأت کمال کو پہنچی ، وہیں قرآن کی خطاطی نے بھی کمال فن حاصل کیا۔ قرآن کی خطاطی میں پوری توانائیوں کا مظاہرہ کرنا اسی طرح فرض اور مقدس جانا گیا جس قدر خود کلام اﷲ ۔ چنانچہ اسی مقدس اور مذہبی عقیدت نے خطاطی میں جمالیاتی حسن کاری اور تخلیقی قوتوں کو پروان چڑھایا۔ 80ھ کے بعد فن خطاطی میں تزئین کا رویہ آرائش و زیبائش کی طرف مبذول ہوا اور 94ھ میں ایک یکتائے روزگار خطاط خالد بن الہیاج نے آرائشی فن خطاطی کا مظاہرہ کیا اور پہلی بار مسجد نبوی میں سورۃ شمس کی خطاطی کر کے مصورانہ خطاطی کی باقاعدہ بنیاد رکھی ۔

کہتے ہیں خالد نے بڑے خوبصورت انداز میں قرآن کی کتابت بھی کی۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ان کے کمال فن کو دیکھا تو اپنے لیے ایک قرآن لکھنے کی فرمائش کی۔ مگر جب خالد آب زر سے قرآن کی کتابت کر کے لیے گیا تو عمر بن عبدالعزیز اس حد تک متاثر ہوئے کہ انہوں نے قرآن پاک کو چوم کر واپس کردیا کہ وہ خالد کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ خالد نے جہاں قرآن مجید کی کتابت میں اپنا لوہا منوایا وہیں اشعار و اخبار کی خطاطی میں بھی ایک ماہر استاد کی حیثیت رکھتا تھا اور اس نے اس میدان میں بڑے کار ہائے نمایاں انجام دیئے۔ دورامیہ کی ابتدا میں قطبہ المحرز نے فن خطاطی میں رنگا رنگی اور حسن و زیبائش پیدا کی۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہے کہ انہوں نے کوفی خط میں ایسا قلم بھی ایجاد کیا تھا جس کی شباہت خط نسخ کے قریب تھی۔ 

چنانچہ بعض علماء کا یہ خیال درست ہے کہ خط کوفی کے ساتھ ساتھ ایک دوسر ا خط بھی پروان چڑھتا رہا جس کو مفکرین نے خط نسخ سے منسوب کیا ہے۔ بزم ہمدرد راولپنڈی کی ایک تقریب جس کا عنوان ’’ قلم ہماری تلوار ہے، کتاب ہماری ڈھال ہے ‘‘ میں حکیم محمد سعید مرحوم جو ملک کے نامور طبیب ہی نہیں بلکہ ایک دانشور اور کتب خانوں کے سر پرست اعلیٰ بھی تھے، نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ قلم تلوار اور کتاب ڈھا ل ہے ‘‘ قلم ابدی سچائیاں لکھتا ہے۔ یہ تہذیب کی پہچان اور انسان کے ذہن کی زبان ہے۔ 

انہوں نے قلم کو روشنی کا دوسرا نام دیا نیز اس کو ایسی تلوار قرار دیا جو خیر کے لیے استعمال ہو۔ اسلام میں فن کتابت اور خطاطی کا رواج اوراس میں حسن و زیبائش کا اہتمام دراصل اسی روح کی غمازی کرتا ہے جس کو مذہب اسلام نے جہاد بالقلم قرار دیا ہے اور ایک عالم کے قلم کی سیاہی کو شہید کے خون پر فوقیت دی ہے۔ خط کوفی تقریباً پانچ سو سال تک کتبات اور قرآن نویسی میں مستعمل رہا۔ ڈیمنڈ (مسلمانوں کے فنون اردو ترجمہ از شیخ عنایت اﷲمطبوعہ لاہور) کے مطابق قرآن مجید کا اس خط میں لکھا ہوا ایک نہایت ہی قدیم نسخہ قاہرہ کے کتاب خانے میں ہے جس پر وقف کی تاریخ 168ھ 784ء لکھی ہوئی ہے۔ کوفی خط میں لکھے ہوئے نسخوں کا ذکر ڈیمنڈ نے تفصیل سے کیا ہے۔


اشرف علی


Post a Comment

0 Comments