Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

حسرت موہانی : ایک لاجواب شاعر

یوں تو برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے لیے بے شمار لوگوں نے قربانیوں کی نئی داستانیں رقم کیں اور ان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ زندہ رہے گا، لیکن کچھ مرد مجاہد ایسے بھی تھے جو برطانوی استعمار کے خلاف کچھ اس انداز سے ڈٹے رہے کہ وہ دوسروں کیلئے قابل رشک بن گئے۔ ان ہی سے ایک نام بلاشبہ مولانا حسرت موہانی کا بھی ہے۔ مولانا حسرت موہانی نہ صرف تحریک آزادی کے مجاہد تھے بلکہ وہ ایک بے مثل شاعر بھی تھے۔ یکم جنوری 1875ء کو موہان (بھارت) میں پیدا ہونے والے حسرت موہانی کا اصل نام سید فضل حسین تھا۔ جب وہ اردو شاعری سے وابستہ ہوئے تو اپنا ادبی نام حسرت موہانی رکھ لیا۔ ان کے آبائو اجداد نیشا پور (ایران) سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ 

حسرت موہانی بڑے ذہین طالب علم تھے اور انہوں نے امتحانات میں بھی شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔ بعد میں انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ یہاں ان کے ساتھیوں میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی بھی شامل تھے۔ شاعری میں ان کے استاد تسلیم لکھنوی اور نسیم دہلوی تھے۔1921ء میں رام پرساد بسمل احمد آباد کانگرس کے اجلاس میں شامل ہوئے۔ ان کے ساتھ ان کے کئی ساتھی بھی تھے جنہوں نے ڈائس پر قبضہ کر لیا۔ بسمل کے ساتھ کانگرس کا ایک سینئر لیڈر پریم کرشن کھنہ اورانقلابی لیڈر اشفاق اللہ خان کے بھی بہت قریب تھا اور مولانا حسرت موہانی کے ساتھ بھی اس کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ بسمل اور اس کے ساتھیوں کی لبرل گروپ آف کانگرس کے خلاف ایک اور فتح تھی۔

مولانا حسرت موہانی نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ کئی برس قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ’’کامل آزادی‘‘ کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ انہوں نے 1921ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے دوران کیا جس کی وہ صدارت کر رہے تھے۔ ویسے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا حسرت موہانی ایک پکے مسلمان تھے لیکن وہ کمیونزم سے بھی بہت متاثر تھے۔ وہ ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ برطانوی استعمار کے خلاف تقریروں پر بھی انہیں جیل میں ڈالا گیا۔ خاص طور پر جب ان کا ایک مضمون ’’آردوئے معلی‘‘ مصر میں شائع ہوا تو برطانوی سرکار سخت نالاں ہوئی۔ اس مضمون میں مولانا حسرت موہانی نے برطانوی پالیسیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد انہوں نے جوش ملیح آبادی اور ناصر کاظمی کے برعکس ہندوستان میں قیام کو ترجیح دی۔

ان کی خدمات کے عوض انہیں آئین ساز اسمبلی کا ممبر بنا دیا گیا۔ جس نے بھارتی آئین کا مسودہ تیار کیا۔ لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ دوسرے ارکان کے برعکس انہوں نے کبھی اس مسودے پر دستخط نہیں کیے۔ مولانا حسرت موہانی نے غزل کے بڑے اعلیٰ شاعر تھے۔ ان کی غزلیں آج بھی مقبول ہیں۔ ان کی کتابوں میں ’’گلیات حسرت موہانی، شرح کلام غالب، نکات سخن اور مشاہدات زندان‘‘ شامل ہیں۔ ذیل میں ان کی غزلیات کے اشعار پیش کیے جا رہے ہیں۔ 

آپ نے قدر کچھ نہ کی دل کی

 اڑ گئی مفت میں ہنسی دل کی 

یاد ہر حال میں رہے وہ مجھے

 الغرض بات رہ گئی دل کی

 اے یاد یار دیکھ کے بے وصف رنج ہجر

 مسرور ہیں تری خلش ناتواں سے ہم 

بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں

 الٰہی ترک الفت پر وہ کیونکر یاد آتے ہیں

 رہا کرتے ہیں قید ہوش میں اے وائے ناکامی

 وہ دشت خود فراموشی کے چکر یاد آتے ہیں

 بے کلی سے مجھے راحت ہو گی 

چیر دیں آپ عنایت ہو گی

 وصل میں ان کے قدم چومیں گے

 وہ بھی گر ان کی اجازت ہو گی

 چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

 ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے 

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونہ دفعتا 

مولانا حسرت موہانی کے نام پر کراچی میں حسرت موہانی کالونی بھی قائم کی گئی۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ جیل میں چکی بھی پیستے رہے۔ 1951ء میں مولانا نصرت موہانی نے حسرت موہانی میموریل سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ کلکتہ میں ایک گرلز سکول بھی ان کے نام پر رکھا گیا۔ اس کا نام ہے حسرت موہانی میموریل گرلز ہائیر سیکنڈری سکول۔ حسرت موہانی 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے۔ انہوں نے قابل رشک زندگی گزاری اور آج بھی ان کا نام بڑی محبت اور عقیدت سے لیا جاتا ہے۔

عبدالحفیظ ظفر































































































































































Post a Comment

0 Comments