Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

میبل اور میں : پطرس بخاری

میبل اور میں کیمبرج یونیورسٹی میں ایک ہی مضمون پڑھتے تھے۔ اس لیے اکثر لیکچرز میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ پھر ہم دوست بھی تھے۔ کئی دلچسپیوں میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے تھے۔ تصویروں اور موسیقی کا شوق اسے بھی تھا، میں بھی ہمہ دانی کا دعویدار اکثر گیلریوں میں اکھٹے جایا کرتے تھے۔ دونوں انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔ کتابوں کے متعلق باہم بحث و مباحثے رہتے۔ ہم میں سے اگر کوئی نئی کتاب یا نیا "مصنف" دریافت کرتا تو دوسرے کو ضرور آگاہ کرتا۔ اور پھر دونوں مل کر اس پر اچھے برے کا تبصرہ کرتے۔ لیکن اس تمام یک جہتی اور ہم آہنگی میں ایک خلش ضرور تھی۔ ہم دونوں نے بیسویں صدی میں پرورش پائی تھی۔ عورت اور مرد کی مساوات کے قائل تو ضرور تھے تاہم بعض اوقات اپنے رویے سے ہم کبھی نہ کبھی اس کی تکذیب ضرور کر دیتے تھے۔

 بعض حالات کے ماتحت میبل ایسی رعایت کو اپنا حق سمجھتی جو صرف صنف ضعیف ہی کو ملنی چاہئیں اور بعض اوقات میں تحکم اور رہنمائی کا رویہ اختیار کر لیتا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ گویا ایک مرد ہونے کی حیثیت سے میرا فرض یہی ہے۔ خصوصاً مجھے یہ احساس بہت زیادہ تکلیف دیتا تھا کہ میبل کا مطالعہ مجھ سے بہت وسیع ہے۔ اس سے میرے مردانہ وقار کو صدمہ پہنچتا تھا۔ کبھی کبھی میرے جسم کے اندر میرے ایشیائی آبائی و اجداد کا خون جوش مارتا اور میرا دل جدید تہذیب سے باغی ہو کر مجھ سے کہتا کہ مرد اشرف المخلوقات ہے۔ اس طرح میبل عورت مرد کی مساوات کا اظہار مبالغہ کے ساتھ کرتی تھی۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا معلوم ہوتا کہ وہ عورتوں کو کائنات کی رہبر اور مردوں کو حشرات الارض سمجھتی ہے۔ لیکن اس بات کو میں کیونکر نظرانداز کرتا کہ میبل ایک دن دس بارہ کتابیں خریدتی، اور ہفتہ بھر کے بعد انہیں میرے کمرے میں پھینک کر چلی جاتی اور ساتھ ہی کہہ جاتی کہ میں انہیں پڑھ چکی ہوں۔ تم بھی پڑھ لو پھر ان کے متعلق باتیں کریں گے۔ اول تو میرے لیے ایک ہفتہ میں دس بارہ کتابیں ختم کرنا محال تھا، لیکن فرض کیجئے، مردوں کی لاج رکھنے کے لیے راتوں کی نیند حرام کر کے ان سب کو پڑھ ڈالنا ممکن بھی ہوتا تو بھی ان میں دو یا تین کتابیں فلسفے یا تنقید کی ضرور ایسی ہوتیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے مجھے کافی عرصہ درکار ہوتا۔

چنانچہ ہفتے بھر کی جانفشانی کے بعد ایک عورت کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا کہ میں اس دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ جب تک وہ میرے کمرے میں بیٹھی رہتی، میں کچھ کھسیانا سا ہو کر اس کی باتیں سنتا رہتا، اور وہ نہایت عالمانہ انداز میں آنکھیں چڑھا چڑھا کر باتیں کرتی۔ جب میں اس کے لیے دروازہ کھولتا ، سگریٹ کے لیے دیا سلائی جلاتا یا اپنی سب سے زیادہ آرام دہ کرسی اس کے لیے خالی کر دیتا تو وہ میری ان خدمات کو حق نسوانیت نہیں بلکہ حق استادی سمجھ کر قبول کرتی۔ میبل کے چلے جانے کے بعد ندامت بتدریج غصے میں تبدیل ہو جاتی۔ جان یا مال ایثار سہل ہے، لیکن آن کی خاطر نیک سے نیک انسان بھی ایک نہ ایک دفعہ تو ضرور ناجائز ذرائع کے استعمال پر اتر آتا ہے۔ اسے میری اخلاقی پستی سمجھیے۔ لیکن یہی حالت میری بھی ہو گئی۔ اگلی دفعہ جب میبل سے ملاقات ہوئی تو جو کتابیں میں نے نہیں پڑھی تھیں، ان پر بھی میں نے رائے زنی شروع کر دی۔ لیکن جو کچھ کہتا سنبھل سنبھل کر کہتا تھا تفصیلات کے متعلق کوئی بات منہ سے نہ نکالتا تھا، سرسری طور پر تنقید کرتا تھا اور بڑی ہوشیاری اور دانائی کے ساتھ اپنی رائے کو جدت کا رنگ دیتا تھا۔ 

کسی ناول کے متعلق میبل نے مجھ سے پوچھا تو جواب میں نہایت لا ابالیانہ انداز میں کہا: ’’ہاں اچھی ہے، لیکن ایسی بھی نہیں۔ مصنف سے دور جدید کا نقطہ نظر کچھ نبھا نہ سکا، لیکن پھر بھی بعض نکتے نرالے ہیں، بری نہیں، بری نہیں‘‘۔ کنکھیوں سے میبل کی طرف دیکھتا گیا ، اسے میری ریاکاری بالکل معلوم نہ ہونے پائی۔ ڈرامے کے متعلق کہا کرتا تھا: ’’ہاں پڑھا تو ہے لیکن ابھی تک میں یہ فیصلہ نہیں کر سکا کہ جو کچھ پڑھنے والے کو محسوس ہوتا ہے وہ اسٹیج پر جا کر بھی باقی رہے گا یا نہیں؟ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ اور اس طرح سے اس کی آن بھی قائم رہتی اور گفتگو کا بار بھی میبل کے کندھوں پر ڈال دیتا۔ تنقید کی کتابوں کے بارے میں فرماتا: ’’اس پر اٹھارہویں صدی کے نقادوں کا کچھ کچھ اثر معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یوں ہی نامعلوم سا کہیں کہیں۔ بالکل ہلکا سا اور شاعری کے متعلق اس کا رویہ دلچسپ ہے، بہت دلچسپ، بہت دلچسپ۔‘‘ رفتہ رفتہ مجھے اس فن پر کمال حاصل ہو گیا۔ جس روانی اور نفاست کے ساتھ میں ناخواندہ کتابوں پر گفتگو کر سکتا تھا اور اس پر میں خود حیران رہ جاتا تھا، اس سے جذبات کو ایک آسودگی نصیب ہوئی۔

پطرس بخاری
 


Post a Comment

0 Comments