Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

انسان تنہا کیوں ہوتا جا رہا ہے ؟

گئے وقتوں کی بات ہے شہر لاہور میں ادبی و ثقافتی روایات کا شہرہ پوری دنیا
میں تھا۔ لاہور کے چائے خانوں میں ادیبوں، دانشوروں، وکلاء اساتذہ کے گروپس بیٹھ کر آپس میں ملکی و بین الاقوامی حالات پر مباحثے کیا کرتے تھے۔ لاہور میں چائے خانوں کی بہتات تھی۔ ٹی ہائوس، کافی ہائوس، نگینہ بیکری، پرانی انارکلی کے لاتعداد ٹی سٹال ایسے تھے جہاں لوگ گروپوں کی شکل میں بیٹھ کر مختلف مسائل پر باتیں کیا کرتے تھے۔ یہی نہیں محلوں کے ڈیرے اور تھڑے بھی آباد ہوتے تھے۔ تھڑا کلچر لاہور شہر کا خاصہ تھا، بازاروں میں گھروں کے دروازے کے ساتھ ہی تھڑے بنے ہوئے ہوتے تھے جہاں شام کو لوگ جب دفتروں سے واپس آتے تھے وہاں بیٹھ کر خوش گپیاں کی جاتی تھیں۔ ایسے ہی چند خوشحال افراد نے اپنے گھروں کے باہر ڈیرے بھی بنائے ہوتے تھے جہاں احوال سیاست کے ساتھ ساتھ محلے دار ایک دوسرے کی خبر گیری بھی کرتے تھے.

بلکہ لاہور شہر کے بارے میں مشہور ہے یہاں کی سیاست اسی تھڑا کلچر سے شروع ہوتی تھی۔ لاہور کی سیاست شام 6 بجے کے بعد تھڑوں سے شروع ہوتی اور سیاسی تحریکوں کی شکل اختیار کر لیتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب سائنس نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی۔ صرف سرکاری ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا دور تھا۔ موبائل فون کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ ایک لیٹربکس تھا جو ہر کسی کے گھر پر نہیں لگا ہوتا تھا۔ خط و کتابت کا عروج تھا کسی عزیز کو خط لکھنا اور پھر اس خط کے جواب کا انتظار کرنا درمیان میں جو دن آتے تھے انتظار کا رومانس جو انسانی دل دماغ پر ہوتا تھا اس کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ لوگوں کے آپس میں رابطے تھے۔ شام کو بڑے کمرے میں سارا گھر اکٹھا ہو جاتا، واحد سرکاری TV پر رات آٹھ بجے سارا خاندان مل کر ڈرامہ دیکھتا تھا۔ وقفے کے دوران اس ڈرامے پر آپس میں بات ہوتی تھی۔

پھر جب فلم دیکھنے کا پروگرام بن جاتا تو سارا خاندان اور دوست مل کر سینما گھر فلم دیکھنے جاتے ایک قسم کی مشترکہ خاندانی تفریح کا ساماں ہوتا تھا۔ لاہور کے میلے کسی نے نہیں دیکھے آج کی نسل تو شاید ان میلوں ٹھیلوں کی رونق سے نا واقف ہے مگر پرانے لوگ جانتے ہیں شہر میں میلوں کے دوران کیسا سماں ہوتا تھا۔ ایک عجب قسم کی ثقافتی زندگی کا دور تھا اس شہر لاہور میں۔ مگر وقت نے کروٹ بدلی، سائنس کی نت نئی ایجادات آئی، وی سی آر اور سینما کا دور ختم ہو گیا۔ پہلے ڈش انٹینا اور کیبل سسٹم متعارف ہوا۔ موبائل فون انٹرنیٹ کی جدید ترین 3G ،4G ٹیکنالوجی آئی۔ جدیدیت نے سارا منظرنامہ ہی بدل دیا۔ ٹیلی ویژن کا تصور ہی بدل گیا۔ لوگ موبائل فون پر ڈرامے اور فلمیں دیکھنے لگ گئے ہر بندے کے پاس اپنا موبائل سوشل میڈیا کی آمد نے ایک نیا منظرنامہ بنا دیا ہے۔ وہ بحث مباحثے جو چائے خانوں ،چوپالوں اور تھڑوں پر ہوا کرتے تھے اب سوشل میڈیا یعنی فیس بک اور ٹویٹر پر ہوتے ہیں۔

ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لیے واٹس اپ اور SMS کا سہارا لیا جاتا ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان جدیدیت کے خلاف نہیں ہوتا مگر ایک بات جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ ہے جو سائنس نے انسانی زندگی کی تنہائی میں کہیں اضافہ تو نہیں کر دیا۔ اب ایک گھر میں بیٹھے ہوئے لوگ آپس میں رابطہ کرنے کے لیے موبائل فون کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے سے فیس بک کے ذریعے رابطہ کرتے ہیں۔ کیا انسان تنہائی کی طرف نہیں جا رہا ۔ آخر ایسا کیوں ہے ہمارے معاشرے نے جدید سائنس کی ترقی کو منفی انداز سے کیوں لیا ہے۔ یہ سب ایجادات مغرب سے آئی ہیں کیا وہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ یہ ایک بحث طلب سوال ہے مگر ہمیں یہاں مغرب کو چھوڑ کر اپنے سماج اپنے خطے کے معروضی حالات کی طرف دیکھنا ہو گا۔ ان سطور کو لکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جدید سائنس کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ بالکل نہیں ہمیں جدیدیت کو مثبت انداز سے لینا چاہیے۔ اپنی روایات کو ختم کرنا نہیں چاہیے انسانی تنہائی میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ 

انسانوں سے انسانوں کی جو جڑت ہے اس کو بالکل ختم نہیں ہونا چاہیے۔ مطالعے کی عادت ڈالیں۔ مطالعہ بحث مباحثے کو جنم دیتا ہے۔ اپنے کتب خانے آباد رکھیں، چائے خانوں اور تھڑوں کی محفلیں آباد رہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے رابطہ رکھیں۔ سماج میں مکالمے کا سفر کبھی نہیں روکنا چاہیے ، مکالمہ جمود کو توڑتا ہے۔ ایک دوسرے کو فتح نہیں کرنا صرف اپنی دلیل سے قائل کرنا ہے۔ اس کے لیے جدید سائنس سے بھی استفادہ اٹھانا ہے اور انسانی جڑت کے جو روایتی طریقے ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔ ہمیں انسانوں کو تنہا نہیں کرنا ایک سماجی مکالمے کی طرف جانا ہے۔

حسنین جمیل

Post a Comment

0 Comments