Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

حکیم مومن خان مومنؔ : تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حکیم مومن خان مومنؔ 1800 ء میں دِلّی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حکیم غلام نبی تھا۔ خاندانی حکیم تھے۔ مومنؔ سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیب ہو گئے تھے۔ اچھا حافظہ پایا تھا۔ شطرنج کے عمدہ کھلاڑی تھے۔عربی و فارسی کے بڑے عالم تھے۔ طبیعت شروع ہی سے شاعری کی طرف مائل تھی۔ شاعری کے علاوہ علمِ نجوم میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے۔اُن کی پیش گوئیاں حیران کن حد تک درست ثابت ہوتی تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ کی عزت و توقیر ہر جگہ کی جاتی تھی۔ مومنؔ وضع دار ،وجیہہ ،انتہائی پرکشش اور خوبصورت آدمی تھے۔عالمِ شباب میں اُن کی عشق و عاشقی کے چرچے عام رہے۔ 

مومن خان مومنؔ کو تاریخ گوئی میں ملکہ حاصل تھا۔ اُن کے شاگردوں میں نواب مصطفی خان شیفتہؔ بہت مشہور ہوئے جن کے دیوان کا نام ’’ تذکرہ گلشنِ بے خار‘‘ ہے۔ 1852 ء میں کوٹھے سے گر کر وفات پائی جس کے متعلق خود تاریخ لکھی۔ مومن خان مومنؔ کو اِس شعر پر شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ 

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا 

مرزا غالبؔ کو مومنؔ کا یہ شعر اِس قدر پسند آیا کہ غالبؔ اپنا سارا دیوان اِس شعر کے عوض دینے کو تیار ہو گئے۔ اِس بات کا شہرہ مومنؔ کا مقامِ شاعری متعین کرنے میں بہت ممدو ثابت ہوا۔ عشق کی سچی واردات، نفاست اور سچائی جذبات مومنؔ کی شاعری کے خاص اوصاف تھے۔ شعری اثاثہ میں ایک دیوان اور چھ مثنویاں چھوڑیں۔ 

مومنؔ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تجربات و واردات قلبی کو ایسی تہذیب و شائستگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اُردو شاعری میں وہ اپنی مثال آپ بن گئے۔ اِس منفرد تغّزل نے مومن خان مومنؔ اور اُن کی شاعری کو زندہ جاوید بنا دیا ہے۔ کلامِ مومنؔ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں خلوص اور سچائی بڑی صفائی سے جھلکتی ہے۔عشق و محبت کی وادی پُرخار میں جو اُن کے قلب و جگر پر بیتی اُسے شعر کے لطیف سانچے میں ڈھال دیا۔ خلوص اور سچائی کا انہیں یہ صلا ملا کہ بہ نسبت دیگر شعرا کے اُن کے کلام میں دلکشی، جاذبیت اور اپیل زیادہ پائی جاتی ہے۔ معاملات عشق میں مومنؔ کا بیان رسمی تکلفات سے قطعی ناآشنا معلوم ہوتا ہے۔

مومنؔ کی غزل میں مضامین کے لحاظ سے کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں وہی فرسودہ اور پائمال مضامین دہرائے گئے ہیں۔ مگر مومنؔ نے اِن کو کمال مصوری اور ذہنی اُپچ سے کام لے کر تخیل کا ایسا رنگ دیا کہ وہ چونکا دینے کی حد تک بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ خیال کی کارفرمائی اور طرزِ اظہار نے اُردو غزل کے پرانے مضامین کو نیا لباس اور آہنگ دے کر تصور آفرین اور شائستہ فکر بنا دیا۔ مومنؔ کے تغزل کی دلکشی کا سارا راز اُن کے طرزِ بیان میں ہے۔ یہ طرزِ بیان دیگر غزل گو شعرا سے بالکل الگ، مختلف اور چونکا دینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مومنؔ نے اپنے اِس مخصوص اُسلوب کی بدولت نہ صرف ذوقؔ اور غالبؔ کی دِلّی میں نام پیدا کیا بلکہ اُردو کے معروف متغزلین کی صف میں بھی ایک باوقار اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ مومنؔ نے اپنے اُسلوب میں ابہام، رمزو کنایہ، طنز و تضاد اور تراکیب سے بڑی صفائی اور ہنر مندی سے کام لیا ہے۔

سیّد ارشاد حسین


Post a Comment

0 Comments