Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

نامور افسانہ نگار، شاعرہ، ناول نگار امرتا پریتم

شہرہ آفاق نظم " اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول" کی خالق شاعرہ
امرتا پریتم اگست 1919ء میں گورونانک پورہ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام امرت کور تھا۔ والد کا نام گیانی کرتار سنگھ تہکاری تھا جو رسالہ ریخت نگار لاہور کے ایڈیٹر تھے۔ امرتاپریتم نے بڑے علمی و ادبی ماحول میں تربیت پائی اور اپنے والد سے گورمکھی"پنجابی" سیکھی اور شاعری کا فن سیکھا ۔چودہ برس کی عمر میں ہی گیانی کا امتحان پاس کر لیا۔ لاہور میں رہتے ہوئے انگریزی بھی پڑھ لی اور چھوٹی عمر ہی سے شاعری میں اپنے وجود کا احساس دلانا شروع کر دیا۔ ابھی امرتا پریتم کی عمر بارہ تیرہ سال کی تھی کہ ماں کی مامتا سے محروم ہو گئیں۔ ماں کی موت کے المناک واقعہ نے ان کے خوابیدہ جذبوں کو بیدار کر دیا اور وہ اپنے المناک جذبات کے طوفان کو شاعری کے ذریعہ زمانے تک پہنچانے لگیں۔

جب ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ " امرت لہراں" شائع ہوا تو اس وقت ان کی عمر سولہ برس کی تھی۔ اس مجموعہ کو بہت پسند کیا گیا۔ اس کے بعد جو شعری مجموعے منظر اشاعت پر آئے ان میں جیوندا جیون، لوک پیڑ، پتھر گیٹے، لمیاں واٹاں ، میں تاریخ ہند دی، تریل دھوتے پھل، اوگیتاں والیا، منجھ دی لالی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اب تک ان کی درجنوں کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں نظموں، گیتوں کہانیوں کے مجموعے اور کئی ناول شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد انگریزی کتابوں کے ترجمے بھی کئے ہیں۔ ان کی دوسری کتابوں میں تیسری عورت، 49 دن، پکی حویلی ، شوق صراحی ، اک ہتھ مہندی اک ہتھ شالا،اَک دا بوٹا، چک 36 میں رسیدی ٹکٹ، میں جمع میں، میں جمع تو، میں جمع دنیا، سرگھی ویلا، ناگ منی اور متعدد دوسری تصانیف شامل ہیں۔ دہلی سے گرمکھی رسم الخط میں شائع ہونے والے ایک رسالہ ناگ منی کی ادارت بھی کرتی رہیں۔ قیام پاکستان کے موقع پر ہونے والی قتل و غارت گری بابت لکھی گئی ان کی درج ذیل نظم کلاسیکی ادب کا حصہ بن چکی ہے.

ڈاکٹر جاوید اکرم


Post a Comment

0 Comments