Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شاہی کتب خانے

دور قدیم کے شاہی کتب خانے عام طور پر شاہی محل یا کسی مندر کا حصہ ہوتے تھے ان کو بادشاہ کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی اور تمام اخراجات کتب خانہ بھی شاہی خزانے کو برداشت کرنا پڑتے تھے۔ چنانچہ ان میں رسائی بھی شاہی خاندان کے افراد یا امراء تک محدود تھی۔ قدیم کتب خانوں کی حیثیت محکمہ دستاویزات کی طرح تھی۔ اس میں خاندان شاہی کے حالات حکومت کے اخراجات کا ریکارڈ اور جنگی معاہدات وغیرہ سے متعلق کاغذات محفوظ رکھے جاتے تھے۔ لہذا ضرورت کے وقت بادشاہ یا وزراء یہاں حکومتی معاملات کے لیے آتے یا پھر شہزادے تفریح طبع اور ذوق مطالعہ کی تسکین کی خاطر چلے آتے تھے۔

ایسے حالات میں عوام کا گزران کتب خانوں میں دشوار تھا۔ عہد قدیم میں فراعنہ مصر کے کتب خانوں سے لے کر نینوا کے کتب خانے تک یہی حالات دیکھنے میں آتے تھے۔ برخلاف اس کے عباسیہ دور کے شاہی کتب خانوں میں بغداد کا بیت الحکمت بہت مشہور ہے یہ اگرچہ شاہی کتب خانہ تھا مگر قدیم کتب خانوں کی طرح محلات یا مندروں سے ملحق نہ تھا اس کی عمارت بالکل جدا اور کتب خانے کے لیے مخصوص تھی۔ بیت الحکمت میں خلیفہ و امراء کو مطالعہ کی جس طرح مراعات حاصل تھیں۔ اسی طرح ہر ایک پڑھے لکھے انسان کو یہاں داخلے کی عام اجازت تھی۔ یعنی یہ کتب خانے شاہی اخراجات سے چلتے اور شاہی سرپرستی میں ہونے کے باوجود عام کتب خانوں کی طرح خدمات انجام دیتے تھے۔ کہتے ہیں بیت الحکمت میں دس ہزار کتابیں مختلف موضوعات پر تھیں۔ ان میں بہت سی غیر زبانوں کی کتابوں کے تراجم بھی موجود تھے لہذا ہر فکر و خیال کا قاری خواہ غلام ہو یا آزاد یہاں سے استفادہ کر سکتا تھا۔

 ہارون رشید نے بیت الحکمت میں دو محکمے قائم کئے تھے۔ ایک کتابوں کی فراہمی کا اور دوسرا تصنیف و تالیف کا۔ ان شعبہ جات میں بلا لحاظ مذہب و ملت بڑے بڑے عالموں اور دانشوروں کو تحریر و تراجم کے لیے رکھا گیا تھا جبکہ قدیم کتب خانوں میں اس رواداری اور مساوات کا پتا نہیں چلتا۔ جانسن اپنی کتاب کمیونی کیشن میں اسکندریہ کے کتب خانے کی بابت لکھتا ہے کہ اس میں ایک غلام بھی آ کر کتابوں سے فیض حاصل کر سکتا تھا مگر یہ بات صرف کہی جا سکتی ہے ورنہ جس دور میں عوام کو آزادانہ حقوق حاصل نہ ہوں وہاں علماء اور غلام شاہی کتب خانوں سے استفادہ کر سکیں قیاس میں نہیں آتا۔ عباسیہ دور کے کتب خانوں کی تاریخ سے پتا چلتا ہے وہاں ان سلاطین کتب خانوں میں ہر کس و ناکس کو مطالعہ کی عام اجازت تھی۔

 (کتب اور کتب خانوں کی تاریخ سے انتخاب)  

Post a Comment

0 Comments