کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، آپ اُن سے
کبھی ملے بھی نہیں ہوتے لیکن آپ کو اُن سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ محبت بھی بڑی ظالم شے ہے، انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے، کوئی انسان اپنی فطرت اور عادات میں جتنا چاہے کُھردرا اور سخت ہو، محبت اُسے موم بنا ہی دیتی ہے، وہ زیر ہو جاتا ہے۔ بانو قدسیہ نے بھی محبت کی اور اپنی محبت کو پا لیا۔ یہ محبت اُن کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے، محبت کی یہی چاشنی ہے جو اُن کی تحریروں میں رس گھولتی ہے۔ پڑھنے والا پڑھتا ہے اور سر دُھنتا ہے۔ بانو قدسیہ جیسے لوگوں کا ایک مسئلہ بھی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام سے محبت کرتے ہیں، اسلامی شعائر کا مذاق نہیں اُڑاتے اور یہی چیز لوگوں کو چُبھتی ہے۔ آج کا ہر نیا ادیب یہ سوچتا ہے کہ وہ خود کو اُس وقت تک بڑا ادیب ثابت نہیں کر سکتا جب تک وہ اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے سوالات کو ایک نئے سرے سے دوبارہ نہ اُٹھائے، حالانکہ اِن سوالوں کے جوابات کئی بار معقول انداز سے دیئے جا چکے ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں بانو قدسیہ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں، ’’میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہو گا ؟ نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ اُنہوں نے اُسے مقابلہ کے اِس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی، ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا۔ اُن دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکی لڑکا ٹھہرا ہوا تھا۔ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکی تہذیب، امریکی زندگی، امریکی اندازِ زیست سب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے، مسلمانوں سے بہتر ہے، تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا، اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتائیے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجئے کہ اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟
میں نے اُس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: ove – Love thy neighbor as thyself، یہ ایسنس ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے brother hood ہے۔ کہنے لگا چھوڑیئے یہ کسی مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیئے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیئے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اُس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا، وہ ایک دَم سفید ہوگیا اور اُس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو، اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اُسے میں نے کیوں کہا کیونکہ اُس پر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔ حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے، آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اُس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا، یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔
بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ اُس کے بعد انہوں نے یہ کتاب لکھی اور میں وہ بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے اُن کی رہنمائی کی اور اُن کی مدد فرمائی اور انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے نہیں لکھی بلکہ اُن سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اُس کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ 25 کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں اور جتنا بھی اُس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔‘‘ یہ وہ لوگ تھے جو اسلام کو اپنی معاشرت اور ثقافت کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اُنہیں معلوم تھا کہ یہ ملک اُنہوں نے کیسے حاصل کیا ہے۔
پاکستان بننے سے متعلق کہتی ہیں، ’’جب پاکستان بنا ہے اُسی سال میں نے بی اے کیا۔ آپ یقین کریں جو تجربات ہمیں پاکستان کے قیام کے وقت ہوئے ہیں، وہ آپ لوگوں کو سمجھ میں بھی نہیں آ سکتے۔ آپ لوگ چھوٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کیا چیز تھی اور کیا بنا ہے۔ جب کالج میں ہم امتحان دے رہے تھے تو یک دم آگ لگ گئی۔ پھر کنیرڈ کالج سے اُٹھا کر لڑکیوں کو بس میں ڈالا گیا اور ایف سی کالج لے کر گئے اور ہم نے وہاں امتحان کا پرچہ دیا۔ راستے میں بھی اندیشہ تھا کہ لڑکیاں اغواء نہ کر لی جائیں۔ ایسے حالات میں ہم نے امتحان کیا۔ پھر پاکستان بنا۔ پھر آپ جانتے نہیں جیسے اشفاق صاحب ہمیشہ کہتے رہتے تھے، کہتے چلے گئے ہیں، پاکستان جو ہے یاد رکھئے، یاد رکھیے، پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عزتِ نفس حاصل ہو۔ پاکستان کا سلوگن (نعرہ) روٹی کپڑا اور مکان نہیں ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان جو ہے وہ تو اوپر والا دیتا ہے۔ آپ یقین کریں روٹی کپڑا اور مکان انسان دے نہیں سکتا کسی کو۔ آپ دعویٰ کرلیجئے، دے کر دکھائیے کسی کو، اگر آپ کو اپنے بچوں کو بھی روٹی کپڑا اور مکان دینا پڑے تو آپ دے نہیں سکیں گے۔ مجبوریاں درپیش ہوجائیں گی، کوئی وجہ ہو جائے گی، نوکری چھوٹ جائے گی، کچھ ہو جائے گا۔ لیکن عزتِ نفس، شیریں کلامی، کسی کے ساتھ اچھا سُخن کرنا، یہی ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔‘‘
جنہوں نے کبھی بانو قدسیہ کو نہیں پڑھا، یہ سوال یقیناً اب اُن کے اذہان میں وارد ہوا ہو گا کہ آخر بانو قدسیہ کون تھی؟ بانو قدسیہ کا مختصر تعارف اُن کیلئے پیش کئے دیتے ہیں۔ بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئیں تھیں۔ اُن کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور اُن کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اُس وقت اُن کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی اپنی عمر اُس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ اُن کا ایک ہی بھائی پرویز تھا جن کا انتقال ہو چکا ہے۔ بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ انہیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے اُنہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ جب پانچویں جماعت میں تھیں تو اُن کے اسکول میں ڈراما فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر جماعت کو اپنا اپنا ڈرامہ پرفارم کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو 30 منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لئے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ اُن سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اُس چیلنج کو قبول کیا اور بقول اُن کے جتنی بھی اْردو آتی تھی اس میں ڈراما لکھ دیا۔ یہ اُن کی پہلی کاوش تھی۔
اُس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اِس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔ طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اْردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر اُن کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950ء میں اُس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔
اپنے لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہو گئی۔ اُس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ثابت ہوئے۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تا کہ مقابلہ پورا ہو۔ اِس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا، اشفاق صاحب نے ہمت بھی دلائی اور حوصلہ افزائی بھی کی اور حوصلہ شکنی بھی کی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک اُن کا رویہ استاد کا ہی رہا۔ میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں۔
بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور، جبکہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا جس وقت انہوں نے بی اے کا امتحان دیا اُس وقت 47ء کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی۔ گورداس پور اور شاہ عالمی اِس آگ کی لپیٹ میں آچکے تھے۔ اِس آگ کے دریا میں بانو قدسیہ بی اے کے پیپرز دینے کے لئے ایف سی کالج جاتی رہیں کیونکہ فسادات کی وجہ سے کنیئرڈ کالج میں امتحانی سینٹر نہ کھل سکا تھا۔ بی اے کا امتحان کسی طرح دے دیا۔ فسادات پھیلتے چلے گئے اور بانو قدسیہ اپنے خاندان کے ہمراہ گورداس پور میں اِس لیے مطمئن تھیں کہ یہاں تو مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ حصہ تو پاکستان کے حصے میں ہی آئے گا مگر رات بارہ بجے اعلان ہو گیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے، چنانچہ بانو قدسیہ اپنے کنبے کے ہمراہ پتن پہنچیں جہاں سے رات کو قافلے نکل کر جاتے تھے اور اکثر قافلے رات کو قتل کر دیئے جاتے تھے۔ بانو قدسیہ کا آدھا قافلہ بِچھڑ گیا تھا اور آدھا قتل ہو گیا تھا۔ تین ٹرک پاکستان پہنچے ایک میں بانو قدسیہ، ان کی والدہ اور بھائی بچ گئے تھے جبکہ دوسرے رشتے دار قتل کر دیئے گئے۔
پاکستان پہنچ کر بانو قدسیہ کو بی اے کے رزلٹ کا پتا چلا جس میں انہیں کامیابی ملی تھی۔ 1949ء میں انہوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد اُن کے کلاس فیلو تھے۔ دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956ء میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہو گئی۔ دونوں لکھاری تھے اور ادب سے گہرا شُغف رکھتے تھے۔ شادی کے بعد دونوں لکھاری کام میں جُت گئے۔ ایک سال بعد انہوں نے ایک ادبی رسالے ’’داستان گو‘‘ کا اجراء کیا، تمام کام خود کرتے تھے۔ رسالے کا سر ورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز کا فنِ کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے۔ چار سال تک ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلا پھر اسے بند کرنا پڑا۔ اشفاق احمد ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر تھے وہ دونوں ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ’’تلقین شاہ‘‘ 1962ء سے جاری ہوا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد ایوب خان کے ہاتھوں تازہ تازہ جاری ہونیوالے سرکاری جریدے ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تو اُس کے لئے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ مسلسل لکھنے لگے۔ اشفاق احمد کی کوئی سیریز ختم ہوتی تو بانو قدسیہ کی سیریل شروع ہوجاتی تھی۔ ریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف کے رنگ دکھاتے رہے۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی جبکہ اشفاق احمد کی پہلی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی۔ بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر اُنہوں نے 1965ء تک لکھا، پھر ٹی وی نے انہیں بے حد مصروف کر دیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لئے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کئے جن میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اِس لکھاری جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترکہ کاوش سے اُن کا گھر تعمیر ہوا۔
لاہور کے جنوب میں واقع قیامِ پاکستان سے قبل کی ماڈرن بستی ماڈل ٹاؤن کے ’’داستان سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ اِن دونوں کا تخلیقی سفر جیسے جیسے طے ہوتا گیا، ’’داستان سرائے‘‘ کے نقوش اْبھرتے گئے۔ آج ’’داستان سرائے‘‘ اِن دونوں کی شب و روز محنت کا امین ہے۔ بقول بانو قدسیہ کے ’’شادی کے بعد مفلسی نے ہم دونوں میاں بیوی کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا۔ اشفاق احمد نے ایک فلم ’’دھوپ سائے‘‘ بھی بنائی تھی جو باکس آفس پر فلاپ ہوگئی تھی اور ایک ہفتے بعد سینما سے اْتر گئی تھی۔ ’’دھوپ سائے‘‘ کی کہانی بانو قدسیہ نے لکھی تھی۔ ڈائریکشن کے علاوہ اُس فلم کا اسکرین پلے اشفاق احمد نے لکھا تھا۔ بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی، ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981ء میں شائع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں۔ بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ، اُن کے لئے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔
یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لئے محض اسی لئے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اِس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ’’طریقہ نجات‘‘ بتایا ہے۔ راجہ گدھ کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا ناول ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔ راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں 2003ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2010ء میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اِس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انہوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ بانو قدسیہ کو 26 جنوری 2017ء کو طبعیت خرابی کے باعث لاہور کے اتفاق اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں وہ دس روز زیرِ علاج رہیں۔ بروز ہفتہ 4 فروری 2017ء کو شام 5 بجکر 15 منٹ پر بانو قدسیہ انتقال کر گئیں۔ بانو قدسیہ کے انتقال کے بعد ملک بھر میں اُن کے ناولوں کے اقتباسات لوگوں نے بڑی تعداد میں پڑھے اور انہیں سوشل میڈیا پر پھیلایا۔ اُن کے ناولوں کے چند مشہور اقتباسات درج ذیل ہیں۔
’’کرنیل کور ہونٹ بغیر ہلے کہہ رہے تھے۔ یا رسول اللہ ﷺ ! تیرے در پر آئے ہوئے لوگوں کے لئے تیرے پیاروں نے دروازے کیوں بند کر رکھے ہیں؟ مجھے اِس بات کا رنج نہیں کہ سوڈھی سرداروں کی لڑکی تیلی سے بیاہی جارہی ہے۔ میں تو پوچھتی ہوں کتنے سو، برسوں میں ایک نو مسلم مسلمان ہو جاتا ہے۔ کلمہ پڑھنے کے بعد مسلمان کہلانے کے لئے کتنے برسوں کی کھٹالی میں رہنا پڑتا ہے۔‘‘
(کتنے سو سال سے اقتباس)
اللہ تعالیٰ شاکی ہے کہ اتنی نعمتوں کے باوجود آدم کی اولاد ناشکری ہے اور انسان ازل اور ابد تک پھیلے ہوئے خدا کے سامنے خوفزدہ کھڑا بلبلا کر کہتا ہے۔ یا باری تعالیٰ! تیرے جہاں میں آرزوئیں اتنی دیر سے کیوں پوری ہوتی ہیں؟ زندگی کے بازار میں ہر خوشی اسمگل ہو کر کیوں آتی ہے؟ اس کا بھاؤ اس قدر تیز کیوں ہوتا ہے کہ ہر خریدار اسے خریدنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ ہر خوشی کی قیمت اتنے ڈھیر سارے آنسوؤں سے کیوں ادا کرنا پڑتی ہے۔ آقائے دو جہاں ایسے کیوں ہوتا ہے کہ جب بالآخر خوشی کا بنڈل ہاتھ میں آتا بھی ہے تو اس بنڈل کو دیکھ کر انسان محسوس کرتا ہے کہ دکاندار نے اُسے ٹھگ لیا ہے، جو التجا کی عرضی تجھ تک جاتی ہے اْس پر ارجنٹ لکھا ہوتا ہے اور جو مُہر تیرے فرشتے لگاتے ہیں اْس کے چاروں طرف صبر کا دائرہ نظر آتا ہے۔
ایسا کیوں ہے باری تعالیٰ؟
جس مال گاڑی میں تو انسانی خوشی کے بنڈل روانہ کرتا ہے وہ صدیوں پہلے چلتی ہے اور قرن بعد پہنچتی ہے لوگ اپنے اپنے نام کی بُلٹی نہیں چھڑاتے، بلکہ صدیوں پہلے مر کھپ گئی ہوئی کسی قوم کی خوشی کی کھیپ، یوں آپس میں بانٹ لیتے ہیں جیسے سیلاب زدگان امدادی فنڈ کے سامنے معذور کھڑے ہوں۔ خوشی کو قناعت میں بدلنے والے رب سے کوئی کیا کہے، جبکہ آج تک اُس نے کبھی انسان کی ایجاد کردہ گھڑی اپنی کلائی پر باندھ کر دیکھی ہی نہیں‘‘
(’امر بیل ‘ سے لیا گیا اقتباس)
’’محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے، محبت سادہ لباس میں ملبوس عمر وعیار ہے، ہمیشہ دو راہوں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے، اُس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشاں گِرا ہوتا ہے، محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کچھ سزا نہیں ہوتی، ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے، محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے، کہیں ٹکتا نہیں، محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے، محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے، جب تک روز اُس تصویر میں رنگ نہ بھرو، تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے، روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا۔ اِس طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو رات رہتی ہے۔‘‘
(راجہ گدھ سے اقتباس)
اعظم طارق کوہستانی
کبھی ملے بھی نہیں ہوتے لیکن آپ کو اُن سے محبت ہو جاتی ہے۔ یہ محبت بھی بڑی ظالم شے ہے، انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے، کوئی انسان اپنی فطرت اور عادات میں جتنا چاہے کُھردرا اور سخت ہو، محبت اُسے موم بنا ہی دیتی ہے، وہ زیر ہو جاتا ہے۔ بانو قدسیہ نے بھی محبت کی اور اپنی محبت کو پا لیا۔ یہ محبت اُن کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے، محبت کی یہی چاشنی ہے جو اُن کی تحریروں میں رس گھولتی ہے۔ پڑھنے والا پڑھتا ہے اور سر دُھنتا ہے۔ بانو قدسیہ جیسے لوگوں کا ایک مسئلہ بھی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام سے محبت کرتے ہیں، اسلامی شعائر کا مذاق نہیں اُڑاتے اور یہی چیز لوگوں کو چُبھتی ہے۔ آج کا ہر نیا ادیب یہ سوچتا ہے کہ وہ خود کو اُس وقت تک بڑا ادیب ثابت نہیں کر سکتا جب تک وہ اسلام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے والے سوالات کو ایک نئے سرے سے دوبارہ نہ اُٹھائے، حالانکہ اِن سوالوں کے جوابات کئی بار معقول انداز سے دیئے جا چکے ہیں۔
0 Comments