Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

کتاب کلچر کیسے زندہ ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں ادبی سرگرمیوں کا دائرہ عموماً ادبی میلوں، ادبی کتابوں کی نمائش تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، بلاشبہ یہ ادبی سرگرمیاں ادب کے اس قحط کے دور میں حوصلہ افزا کہی جا سکتی ہیں لیکن معاشرے کے مزاج میں تبدیلی کے لیے یہ سرگرمیاں کوئی بامعنی کردار ادا نہیں کر سکتیں۔ پچھلے ہفتے کراچی میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر اہتمام ایک لٹریچر فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔
یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول کا مقصد پاکستان کی زرخیز، قدیم اور متنوع ثقافتوں اور ادب کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ وہ پھلیں پھولیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ کر زیادہ مثبت اثرات مرتب کر سکیں۔ اس افتتاحی تقریب میں امریکا، برطانیہ، اٹلی اور بھارت کے ہائی کمشنر اور کونسلرز نے شرکت کی، ان حضرات نے کہا کہ کراچی میں ہونے والی ان ادبی سرگرمیوں سے ثقافتی اور ادبی سرگرمیوں کو مہمیز ملتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں جرائم کی تعداد میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے اس کی روک تھام کے لیے عموماً انتظامی سطح پر ہی اقدامات کیے جا رہے ہیں، چونکہ انتظامیہ کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات میں جرائم کی وجوہات اور محرکات کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے قانونی اقدامات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے عمومی جرائم کے علاوہ معاشروں میں جو سماجی جرائم کی وبا ہے، اس کا تدارک بھی سطحی انداز میں قانون کے ڈنڈے ہی سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا نتیجہ خرابیوں میں کمی کے بجائے اضافے کی شکل میں ہی نظر آتا ہے۔
ادب اور شاعری دو ایسے میڈیم ہیں جو معاشرتی بگاڑ میں موثر اور مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ادیب اور شاعر معاشرتی بگاڑ کے محرکات سے واقف ہوتے ہیں اور اس کے طبقاتی محرکات ان کی نظروں میں ہوتے ہیں لہٰذا وہ ان خرابیوں کو دور کرنے کی موثر اور مثبت کوششیں کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں سماجی برائیاں معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں۔ کیا ادب اور شاعری کو موثر بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟

انیس سو ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں جرائم کی شرح اس قدر کم تھی کہ عوام رات کو اپنے گھروں کے دروازے کھلے رکھ کر سوتے تھے۔ چوری، ڈاکے، اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر تھیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ترقی پسند ادب اور شاعری کی رسائی عوام تک تھی۔ کراچی میں کیبن لائبریریوں کا کلچر اس قدر عام تھا کہ کراچی کے محلوں گلیوں میں کیبن لائبریریاں قائم تھیں، جہاں سے عوام ایک آنہ کرائے پر برصغیر کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں حاصل کرتے تھے، نوجوانوں کا فاضل وقت ادب اور شاعری کے مطالعے میں گزرتا تھا اور جو ادبی کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہوتی تھیں وہ آدمی کو انسان بنانے میں بہت موثر کردار ادا کرتی تھیں۔

پاکستان خصوصاً کراچی میں ہر سال ادبی میلے، ادبی کتابوں کی نمائشوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے، بظاہر یہ تقریبات ادب کے فروغ کا ہی حصہ نظر آتی ہیں لیکن اس قسم کی تقریبات میں شامل ہونے والوں کی تعداد پاکستان کی آبادی کے پس منظر میں بہت محدود نظر آتی ہے۔ امریکا، برطانیہ، اٹلی، بھارت وغیرہ کے نمایندوں نے اپنی تقاریر میں یہ دلچسپ بات کی ہے کہ صرف اسٹیج پر بیٹھے ہوئے لوگ ہی اس فیسٹیول کا حصہ نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی اس فیسٹیول کا حصہ ہوتے ہیں جو مقررین سے سوال پوچھتے ہیں۔

فیسٹیول کی روح رواں امینہ سید نے کہا کہ ’’ہم لاکھوں لوگوں تک ادب کی رسائی کو ممکن بنانے کے لیے ان تقریبات کو استعمال کرتے ہیں‘‘۔ موصوفہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی لٹریچر فیسٹیول منعقد کرنے کی درخواستیں مل رہی ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہروں تک فیسٹیول کا دائرہ بڑھائیں۔ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے بیس کروڑ عوام تک ادب کی رسائی نہ ادبی میلوں سے ہو سکتی ہے نہ ادبی کتابوں کی نمائشوں سے نہ ثقافتی فیسٹیولز سے عوام تک ادبی کتابوں کی رسائی کا ایک ہی راستہ ہے کہ کم ازکم صوبائی سطح پر ایک بڑا پبلشنگ ہاؤس قائم کیا جائے جو برصغیر اور دنیا بھر کے ادب سے منتخب ادبی کتابوں کے ترجمے کرے اور ان کے سستے ایڈیشن چھاپ کر ملک گیر سطح پر ادب کی رسائی کا ایک منظم مسئلہ شروع کیا جائے۔

حال ہی میں وزیراعظم نے اکادمی آف لیئرز کو 50 کروڑ روپوں کا ’’تحفہ‘‘ دیا ہے، اگر اس رقم کو پبلشنگ ہاؤسز اور کیبن لائبریریز کے قیام کے لیے استعمال کیا جائے تو نہ صرف کتاب کلچر کے مردہ جسم میں دوبارہ جان پڑ سکتی ہے بلکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے جرائم، دہشتگردی کی لعنتوں کو ختم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ کاش نام نمود اور کاروبار کے فروغ کے لیے ادب کو استعمال کرنے والے کتاب کلچر کے فروغ میں دلچسپی لے سکیں۔

ظہیر اختر بیدری

Post a Comment

0 Comments