Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شہاب نامہ ایک عہد ساز کتاب

قدرت ﷲ شہاب سے میرا پہلا تعارف اُن کی کتاب شہاب نامہ کے ذریعے اُس وقت ہوا جب میں چھٹی کلاس میں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے اپنے انکل کے گھر آیا۔ وہاں پہلی مرتبہ اِس کتاب کا مطالعہ قدرے بے دلی سے کیا، کیونکہ اُس وقت وہاں میرے لحاظ سے کوئی مناسب کتاب موجود نہ تھی۔ اسلوبِ بیان جو قدرے مشکل لیکن بے حد دلچسپ تھا۔ یہی وجہ ہے میں نے اِس کتاب کے 13 ابواب بوریت اور دلچسپی کی ملی جُلی کیفیت میں پڑھ ڈالے۔ اِن 13 ابواب سے آگے پڑھنے کی ہمت نہ ہوئی کیونکہ اگلے ابواب میں میری دلچسپی کا کوئی سامان موجود نہ تھا کیونکہ وہ قدرت ﷲ شہاب کی عملی زندگی سے متعلق تھے۔ پہلے 13 ابواب میں جو باب میری بے حد دلچسپی کا باعث بنے اُن میں سے ایک ’’چندر وتی‘‘ اور دوسرا ’’بملا کماری کی بے چین روح‘‘ تھے۔

نویں کلاس کے امتحان دے کر جب فارغ ہوا تو ایک بار پھر شہاب نامہ کو پڑھنے کا فیصلہ کیا اور اِس طرح پہلے باب سے لے کر تیرہویں باب کا مطالعہ انتہائی دلچسپی سے کیا۔ اِس بار بوریت کا احساس بالکل نہ تھا اور یہی احساس ہو رہا تھا کہ یہ کتاب پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ مکمل پڑھنے کی ہمت اب بھی نہ ہوئی لیکن اِس بار اس کتاب کے مطالعہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور مجھے پہلی بار اردو ادب میں دلچسپی پیدا ہوئی، میں نے اسکول اور کالج کے ادبی و تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔ باقاعدہ بچوں کے رسالوں میں بھی لکھنا شروع کیا اور ہلکی پھلکی شاعری بھی کرنے لگا۔
گریجویشن کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر شہاب نامہ کو پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اِس بار جیسے تیسے کرکے پورا شہاب نامہ پڑھ ڈالا اور اب کی بار شہاب نامہ پڑھ کر جو تبدیلی میں نے خود میں محسوس کی وہ سیاسی معاملات میں دلچسپی تھی، کیونکہ شہاب نامہ کے آخری ابواب کا تعلق پاکستان کی سیاست سے تھا۔ اِس بار شہاب نامہ پڑھنے کے بعد میں نے باقاعدگی سے روزانہ اخبارات کا مطالعہ شروع کر دیا اور ٹی وی پروگرامز میں سیاسی تجزیے بغور سُننا شروع کردیئے اور یوں سیاست میں میری دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ اِس کے بعد بھی شہاب نامہ کو کئی مرتبہ پڑھا اور ہر بار یوں محسوس ہوا کہ میں شہاب نامہ پہلی مرتبہ پڑھ رہا ہوں، ہر مرتبہ شہاب نامہ ایک نئے زاویے کے ساتھ زندگی کی کئی حقیقتوں سے روشنائی دیتا رہا۔

اِس ایک کتاب میں سماجی، ادبی اور سیاسی رویوں اور معلومات کو اِس خوش اسلوبی سے بیان کیا کہ پڑھنے والا اِس کے سحر میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کے طلبہ و طالبات اور نوجوان کتابوں سے یوں دور بھاگتے ہیں جیسے کہ یہ کوئی بہت ہی نقصان دہ چیز ہیں، جس کی بڑی وجہ ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا بے حد عام ہونا ہے۔ اِس کے علاوہ آج کے نوجوانوں کے لئے اردو زبان میں کتاب پڑھنا بھی ایک بہت بڑا دردِ سر بن چکا ہے اور جو چند ایک کتب بینی میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ بھی صرف انگریزی کُتب کا ہی مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں، جو بلا شُبہ بہت اچھی بات ہے مگر اِس کے ساتھ اردو ادب کا مطالعہ بھی بے حد ضروری ہے ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اردو زبان بتدریج زوال کا شکار ہوتے ہوئے معدوم ہوجائے گی۔

بہرحال شہاب نامہ اپنے آپ میں ایک مکمل تربیت گاہ ہے، میں سمجھتا ہوں کی آج میں جیسی بھی شخصیت کا حامل ہوں اِس میں میرے والدین کی تربیت کے ساتھ کسی حد تک شہاب نامہ کا تعلق بھی ہے اور اگر آج والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے اپنی پرانی روایات، ادب اور پاکستان کی تاریخ سے باخبر رہیں تو بہت سی کتابوں کی جگہ محض اُن کو شہاب نامہ مکمل طور پر پڑھنے کو دیں، تا کہ زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ادب اور سیاست میں بھی دلچسی لے سکیں، بلکہ میں تو اِس بات کا حامی ہوں کہ شہاب نامہ کو ہمارے اسکول و کالج کا لازمی حصہ بنا دیا جائے کیونکہ قدرت ﷲ شہاب نے جس خوبصورتی سے زندگی کی تلخیوں، خوشیوں، اداسیوں اور کامیابیوں کا احاطہ کیا ہے وہ کسی اور کتاب میں ملنا بے حد مشکل ہے۔

بظاہر ایک ضخیم اور مشکل اندازِ بیان رکھنے اور نظر آنے والی کتاب جب بندہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اُس کو ختم کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور میں اپنے اِس بلاگ کے زریعے اُن تمام طلبا و طالبات اور نوجوانوں کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اگر وہ اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا غور و فکر کرکے اس کتاب کو مکمل پڑھ لیں تو اُن کو ادب، سماجیات، سیاست اور پاکستان کی تاریخ کی بابت اتنا ضرور معلوم ہوجائے گا کہ انہیں کسی کے سامنے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی اور اُن کو اپنی آنے والی عملی زندگی میں بے حد مدد ملے گی۔

یہ شہاب نامہ ہی ہے جس کی نسبت سے مجھے قدرت ﷲ شہاب سے ایک خاص عقیدت ہے، اس لئے یہ مضمون لکھنے سے چند دن قبل جب میں ایچ ایٹ کے قبرستان میں واقع اُن کی قبر پر فاتح خوانی کرنے گیا تو شہاب نامہ کا ہر وہ کردار جو اُن کی زندگی میں خالقِ حقیقی سے جاملا تھا اور جن کا ذکر اُنہوں نے اپنی کتاب میں کیا تھا وہ ایک ایک کرکے میری نظروں کے سامنے آنے لگے اور چیخ چیخ کر یہ کہنے لگے کہ ہماری موت کا ذکر جس قدرت ﷲ شہاب نے اپنی کتاب میں کیا تھا آج وہ بھی موت کی آغوش میں جا چکا ہے، اور منوں مٹی تلے دفن ہے۔ ہاں! اگر کچھ زندہ ہے تو وہ اُن کا بے مثال کردار، اُن کی خوبصورت تحریریں اور شہاب نامہ جو کبھی نہیں مر سکتے۔

احمد عثمان

Post a Comment

0 Comments