Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

باتیں اشفاق احمد کی

زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کیجیے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماں باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔ اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک 44 برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا بڑا ذہین لڑکا اور خیرو شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے ،تو اس کے جوگر جو کیچڑ میں لتھڑے ہوتے ہیں،وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔

 میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا تھا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگروں کے ساتھ قالین پڑ چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاں کیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو بہت شدت کے ساتھ ڈانتا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو تمہیں شرم آنی چاہیے کہ یہ قالین ہے برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہو۔ اس نے کہا: ’’دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اُتار نے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea تو میں جلدی میں ایسے ہی اندر آجاتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس کا احساس ہونا چاہیے۔

 اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو چنانچہ میں اس پر کمنٹس کرتارہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا، تو میں نے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میں اقوال زرّیں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ ’’جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے‘‘ انسان کو خود یہ سوچنا چاہیے کہ جی مجھ میں فلاں تبدیلی آنی چاہیے جی میں سگریٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں یا میں صبح نہیں اُٹھ سکتا میں اپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔

 ایک نکتہ چیں میں کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کی ذات کی جو بیڑی ہے وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب سیل کمزور ہو جائیں تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیں کی ہوتی ہے۔ میں نے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پرویسی نہیں ہے۔ جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیں کہا کہ عقل کی بات کر تو کیا کہہ رہاہے؟

 اس نے مجھے یہ کہنے کے بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماں نے مجھے بادو باراں کے طوفان میں نہیں کہا کہ چب کر ڈرنے کی بات کیا ہے؟ اور میں نے دیکھا کہ میرے پوتے کی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تا کہ اس کے ساتھ پیر گھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماں میں۔ میں نکتہ چینی کرتارہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔ 

(کتاب ’’زاویہ‘‘ سے ماخوذ)  

Post a Comment

0 Comments