عمر کی ساری تھکن لاد کے گهر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں، مر جاتا ہوں
اکثر اوقات بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں
دل ٹھہر جاتا ہے بهولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رستے سے گزر جاتا ہوں
سمٹا رہتا ہوں بہت حلقہء احباب میں، میں
چار دیواری میں آتے ہی بکهر جاتا ہوں
میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح ہو کے گزر جاتا ہوں
میں نے جو اپنے خلاف آپ گواہی دی ہے
وہ تیرے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں
انجم سلیمی
0 Comments