Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اورنگ زیب عالمگیر کا کتب خانہ

اورنگ زیب عالمگیر (1707ء۔ 1658ء) مغلیہ دور کا ایسا صاحب ایمان اور سیف و قلم بادشاہ تھا کہ اس کو برصغیر میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور اسلامی تشخیص کے قیام کی خاطر اپنی عمر کا بیشتر حصہ ان قوتوں کے خلاف جدوجہد میں صرف کرنا پڑا جو جنوبی ایشیا میں مسلمانوں اور دوسروں اقلیتوں کو حسب سابق اپنے اندر ضم کر کے مہا بھارت کے قیام کا خواب دیکھ رہے تھے۔ برصغیر کی تاریخ میں جین، بدھ اور دوسری مذہبی تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے متعصب ذہنوں نے یہی حربہ استعمال کیا تھا۔

 اورنگ زیب عالمگیر اپنے وقت کا جید عالم تھا۔ وہ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے بخوبی آگاہ تھا۔ وہ نہایت ذہین منصف مزاج اور اعلیٰ تنظیمی صلاحیتوں کا مالک اور سب سے بڑھ کر بہادر نیک مسلمان فرمانروا تھا۔ بعض ہندو مؤرخین نے عالمگیر کو پکا مذہبی اور متعصب حکمران کے نام سے بھی پکارا ہے، مگر وہ ایسا صاحب عدل، با حیا اور رعایا کا غم خوار بادشاہ تھا کہ وہ اکبر کی طرح اپنے آپ کو بے دین اور خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر نہیں سمجھتا تھا۔

 اکبر کی طرح ہر مذہب و ملت کی جابجا ہمدردیاں سمیٹتا نہیں پھرتا تھا۔ اس نے اپنے سے پیشتر فرما نرواؤں کی روش اور سیاسی جوڑتوڑ کی پالیسیوں سے ہٹ کر ایک صاف ستھری اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے والی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کی اور تقریباً 50 سالہ دور حکومت میں زیادہ تر وقت باغی شرپسندوں اور متعصب مرہٹوں کی سرکوبی میں صرف کیا۔ کاش !اورنگ زیب سے قبل بھی مغل حکمران ایسے ہی دین دار، خدا ترس اور بہادر سپاہی ہوتے تو برصغیر پاک و ہند کا نقشہ آج بہت مختلف ہوتا۔

 ان حالات کے باوجود عالمگیر نے جہاں دینی علوم کے لیے بہت سے مدرسے اور کالج قائم کیے اور ان کے ساتھ معیاری ادب سے بھرے ہوئے کتب خانوں کا قیام بھی لازمی سمجھا۔ وہ کتابوں سے والہانہ شغف رکھتا تھا۔ خود بہت بڑا عالم تھا۔ شورشوں اور بغاوتوں کی سرکوبی کے دوران جب بھی وقت ملتا تو دینی علوم پر عربی اور فارسی کتب کا مطالعہ کرتا۔ فارسی زبان میں اس کے خطوط و خطبات اس کی علمی مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ ترکی، ہندی زبانوں پر بھی عبور تھا۔ خود حافظ قرآن تھا اور یہی تعلیم اپنی اولاد کو بھی دلوائی۔

 دینی مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی کفالت بھی شاہی خزانے سے کی جاتی تھی۔ اورنگ زیب شاہی کتب خانہ میں اچھی کتابوں کا اضافہ کرتا رہتا تھا۔ بادشاہ اچھی کتابیں پیش کرنے والوں کو معقول معاوضہ ادا کرتا تھا چنانچہ جب بیجاپور کو فتح کیا تو ابراہیم عادل شاہ کے کتب خانے کی نادر کتب شاہی کتب خانہ میں محفوظ کرا دیں۔ اسی طرح محمود گاواں کے مجموعہ کتب کو بیدر سے حاصل کر کے شاہی لائبریری میں داخل کیا۔ فتاویٰ عالمگیری اسلامی قوانین پر مستند کتاب سمجھی جاتی ہے۔ محمد صالح شاہی کتب خانے کا لائبریرین تھا۔ عالمگیر جیسا متقی اور پرہیز گار بادشاہ مخالفین سلطنت کی سر کو بی کرتے ہوئے 3 مارچ 1707ء کو حیدر آباد دکن میں انتقال کر گیا۔

اشرف علی
 (کتب اور کتب خانوں کی تاریخ)

Post a Comment

0 Comments