تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
تمہارے بس میں اگر ہے تو بھول جاؤ ہمیں
تمہیں بھلانے میں شاید ہمیں زمانہ لگے
جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو
کہ آس پاس کی لہروں کو بھی پتہ نہ لگے
اسی لئے تو کھلائے ہیں پھول صفحوں پر
ہمیں جو زخم لگے ہیں وہ دوستانہ لگے
وہ اک ستارہ کہ جو راستہ دکھائے ہمیں
وہ اک اشارہ کہ جو حرف محرمانہ لگے
نہ جانے کب سے کوئی میرے ساتھ ہے قیصر
جو اجنبی نہ لگے اور آشنا نہ لگے
قیصرؔ الجعفری
0 Comments