داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنی دِیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خُود فریبی سی خُود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سُہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گُماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
رُخ بدلنے لگا فسانے کا
لوگ محفل سے اُٹھ کے جانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قِسمت سے ہے مفر کس کو
تِیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے
ہم تک آئے نہ موسمِ گُل
کچھ پرندے تو چہچہانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی
0 Comments