Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

’’تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی‘‘ خمار بارہ بنکوی عمدہ غزل شاعر

بارہ بنکی اترپردیش (یوپی)کا ایک چھوٹاسا شہر ہے جس نے باکمال فنکار پیدا کیے ہیں۔ ان میں تین نام تو زبردست اہمیت کے حامل ہیں۔ نصیرالدین شاہ، سروربارہ بنکوی اور خمار بارہ بنکوی۔ 1919ء میں پیدا ہونے والے خمار بارہ بنکوی کا شماربھی انہی فنکاروں میں ہوتا ہے جن کی وہ قدرومنزلت نہیں کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ بہرحال ایک المیہ ہے۔ 

برصغیر پاک و ہند کی فلمی تاریخ میں ایسے شعراء بہت کم ملتے ہیں جو غزل گوئی میں بھی منفردمقام کے حامل تھے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلمی گیت نگاری میں بھی اپنے نام کا ڈنکا بجایا۔ پاکستان میں اس حوالے سے قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، حبیب جالب اور منیر نیازی کی مثالیں دی جا سکتی ہیںجبکہ ہندوستان میں شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، قمر جلال آبادی اور خماربارہ بنکوی کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے غزل گوئی میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور نغمہ نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔

 خمار بارہ بنکوی کی غزلیات پڑھ کر فوری طور پر تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر ہیں۔ ان کے اشعار میں شعری طرز احساس اور جمالیاتی طرز احساس کا بڑا خوبصورت امتزاج ملتا ہے لیکن پھر ان کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ان کی شاعری کے کئی رنگ ہیں اور کئی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کا کینوس محدود نہیں رکھا۔ ان کی قوت مشاہدہ اور قوت متخیلہ شاندار شاعری کے روپ میں قاری کے سامنے آشکار ہوتی ہے… وہ مشاعروں کے بڑے کامیاب شاعر تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ 

ذیل میں ہم اپنے قارئین کیلئے خمار بنکوی کی غزلیات کے چند اشعار درج کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے دامن یار سے کوئی نسبت نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں مری یاد سے جنگ فرما رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات جب دوستوں کی آتی ہے دوستی کانپ کانپ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حال غم ان کو سناتے جائیے شرط یہ ہے مسکراتے جائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا دوستوں کو آزماتے جائیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قید رکھا مجھے صیاد نے کہہ کہہ کے یہی ابھی آزاد کیا، بس ابھی آزاد کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی جو میں نے مسرت کا اہتمام کیا بڑے تپاک سے غم نے مجھے سلام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو شکست دل کا مزا یاد آ گیا تم کیوں اداس ہوگئے کیا یاد آ گیا ترے در سے اٹھ کرجدھر جائوں میں چلوں دوقدم اور ٹھہر جائوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک پل میں اک صدی کا مزا ہم سے پوچھئے دو دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ 
 
1999 میں یہ بے مثل شاعر اور گیت نگار اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا… ان کا شعری ورثہ ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

عبدالحفیظ ظفر
 

Post a Comment

0 Comments