Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

قرۃالعین حیدرایک بڑی فکشن رائٹر....

قرۃالعین حیدربلاشبہ ایک بڑی فکشن رائٹرتھیں بلکہ اردو کی سب سے بڑی ناول نگار۔ انہوں نے بہت سے افسانے بھی لکھے اوران کے افسانوں کے چار مجموعے ستاروں سے آگے‘شیشے کے گھر ‘پت جھڑ کی آوازاورروشنی کی رفتار‘افسانوی ادب میں ایک بلندمقام رکھتے ہیں اوران کے بعض افسانوں کو جدید اردو افسانے کی بنیاد سمجھاجاسکتاہے جیسے شعور کی رو میں لکھاہواافسانہ’’قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہندآتی ہے‘‘ اسلوب کی تازہ کاری کاایک بہت خوبصورت نمونہ ہے۔ 

لیکن جیساکہ سب جانتے ہیں ان کی اصل شناخت اوربڑاکارنامہ ناولوں کی صورت میں ظہورپذیر ہوا۔ انہوں نے چارناولٹ لکھے۔ سیتاہرن‘چائے کے باغ‘دلربا اوراگلے جنم موہے بٹیانہ کیجو۔ان کے سات ناولوں میں میرے بھی صنم خانے‘سفینہئِ غم دل ‘آگ کادریا‘آخرِ شب کے ہم سفر‘گردش ِرنگِ چمن ‘چاندنی بیگم اور چارجلدوں پرمشتمل سوانحی ناول ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘شامل ہیں۔پانچ رپورتاژ‘اور اہم کتابوں کے چھے سات تراجم اس کے علاوہ ہیںجن میں ہنری جیمز کے پورٹریٹ آف اے لیڈی کاترجمہ ’’ہمیں چراغ ہمیں پروانے ‘اہم تر ہے۔ 

میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں کہ مجھے ان سے ذاتی طور پرملنے اورادبی موضوعات پر تبادلہ ِ خیالات کامتعدد بار موقعہ ملا۔ایک بار پروفیسرفتح محمدملک کے ہاں،ایک بار بیگم جری احمدسید کے ہاںاورکئی بارکشورناہیدکے گھرپر۔مگران سے میری پہلی ملاقات‘ جو بیس سال پہلے دہلی میں ان کی رہایش گاہ واقع ذاکرباغ میں ہوئی تھی ‘میرے لیے بہت یادگارہے۔میں ان کے پڑوس میں شمیم حنفی کے ہا ں کھانے پرمدعو تھا۔وہیںسے رابطہ کیااورملنے کی خواہش کااظہارکیا ۔انہوںنے کہاآجائیے۔ کھانے میں کچھ دیر ہوگئی تو دوباران کافون آیاکہ وہ انتظار کررہی ہیں۔ہم ان کے ہاں پہنچے تو بہت خوش ہوئیں اورتپاک سے ملیں۔میں نے اپنی کچھ کتابیں پیش کیں اورکہا کہ اس سے پہلے میں نے اپنی کتابیں آپ کواس لیے ڈاک سے نہیں بھیجیں کہ آپ اتنی بڑی لکھنے والی ہیں ہم نئے لوگوں کوکہاں پڑھتی ہوں گی۔

اس پرمحبت بھری خفگی سے بولیں: ’’ارے آپ کیاسمجھتے ہیں کہ میں نے پڑھناچھوڑ دیاہے ؟ ‘‘ پھرانہوں نے میرے ایک آدھ افسانے کاذکرکیااوریہ بھی بتایاکہ غالب لائبریری میں پاکستان کاصر ف ایک اخبار آتاہے۔ وہ اس کے ادبی صفحہ میں اسلام آباد راولپنڈی سمیت پاکستان بھرکی ادبی سرگرمیوں کی رپورٹیں دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔ان دنوں قدرت اللہ شہاب کاشہاب نامہ شائع ہوچکاتھااورادبی اورعوامی حلقوں میں بے حدمقبول ہورہاتھا۔ میں شہاب نامہ پڑھ چکاتھامگروہ ابھی ان تک نہیں پہنچاتھا۔

وہ خاصی دیرتک شہاب صاحب کے بارے میں دلچسپ گفتگوکرتی رہیں۔ میں نے ان کے حوالے سے شہاب نامہ میں درج بعض باتوں کی تصدیق چاہی مثلاً کیاسچ مچ وہ پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی وجہ سے واپس انڈیاچلی گئی تھیں اورکیاانہوں نے واقعی یہ کہاتھاکہ کیا اب ہم ٹی ہاؤس میں بیٹھ کربھونک بھی نہیں سکتے وغیرہ۔ وہ یہ سن کرہنسنے لگیں اورکہاکہ یہ سب گپ ہے ۔ پھرکہنے لگیں کہ کراچی کے قیام کے دوران شہاب صاحب ہمیں اپنے عشق کاایک طویل قصہ قسطوں میں سنایاکرتے تھے بعد میں پتہ چلاوہ سب بھی فکشن ہی تھا۔

مجھ سے فرمایش کی کہ میں واپس جاکرانہیں شہاب نامہ کی ایک جلدبھجواؤںگا۔میں نے وعدہ کرلیااورواپس آکرڈاکٹرجمیل جالبی کے ذریعے جوکچھ دنوں بعد دہلی جارہے تھے شہاب نامہ کی ایک جلدانہیں بھجوادی۔ شہاب صاحب کے بارے میں انہوں نے ’’ کارِ جہاںدراز ہے‘‘ میں بہت کچھ لکھاہے لیکن ایک چھوٹے سے اقتباس سے ان دونوں مصنفین کی سوچ کافرق معلوم ہوجاتاہے :’’ہم لوگ شہاب صاحب سے ملنے گورنرجنرلز ہاؤس گئے۔

گورنرجنرل غلام محمدصاحب کاانتقال چندروز قبل ہواتھا۔شہاب صاحب سیکرٹری تھے ۔اس وقت رات کے آٹھ بجے تھے۔ شہاب صاحب کاوسیع و عریض عالیشان دفتر روشنیوںسے بقعہ ء نوربناہواتھا۔ موصوف میز پربیٹھے ایک مضمون لکھ رہے تھے۔ فرمایا’’آپ کومعلوم ہے کہ مرحوم و مغفور ولی اللہ تھے۔ میں نے ان کوجذب کے عالم میں دیکھاہے۔اپنے مضمون میں مرحوم کی شخصیت کے اسی پہلو پرروشنی ڈال رہاہوں‘‘ ’’شہاب صاحب بات یہ ہے کہ ہم سب ولی اللہ ہوچکے ہیں۔ یہی توساراپرابلم ہے‘‘میں نے قصہ مختصرکیا۔ 

شہاب صاحب نے مضمون پڑھ کرسنایا۔شہاب صاحب ایک اچھے فکشن رائٹرتھے مگر انہوں نے قرۃ العین حیدر کے برعکس ادیب ہونے پراکتفانہ کیااور اپنی خودنوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں فراوانی سے فکشن اور دعائیں شامل کردیں جس سے وہ بڑے ادیب کی بجائے شاید ولی اللہ توہوگئے ہوں گے مگرقرۃ العین ایک بڑی ادیبہ ہی رہیں ۔

منشایاد کی کتاب’’حسبِ منشا‘‘سے اقتباس

Post a Comment

0 Comments