Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ....

  شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے اپنی ساری زندگی اُردو کے فروغ اور ترویج کے لیے وقف کیے رکھی،یہی وجہ ہے کہ اس زبان سے محبت رکھنے والے کبھی بھی اُردو کے اس محسن کو فراموش نہیں کرسکتے۔ حالیؔ کی مسدس اور مقدمہ شعر و شاعری ایسا گراں قدر سرمایہ ہے، جس نے اُردو ادب کو آفاق کی وسعتوں میں پہنچادیا ۔مولانا حالیؔ نہایت شریف النفس اور وضع دار انسان تھے۔ وہ ایک سچے قوم پرست تھے۔ 

مسلمانوں کی علمی اور معاشی پسماندگی سے دلبرداشتہ تھے۔ سرسید احمد خاں اس زمانے میں مسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے اُنھیں معاشی طور پر مضبوط کرکے دوسرے ابنائے وطن کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم چلنے کی تحریک میں منہمک تھے۔ حالیؔ اس تحریک سے وابستہ ہوگئے اور سرسید کے کہنے پر مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے انھوں نے ایک معرکتہ الآرا مسدس لکھی۔مولانا حالیؔ کا وطن پانی پت ہے۔ اُن کا جدی سلسلہ خواجہ ملک سے ملتا ہے، جومشہور صوفی ، عالم اور برگزیدہ بزرگ تھے۔ اُن کا سلسلہ نسب انصاریوں کے معزز خاندان سے تھا۔ اُن کے نانا سید تھے۔ خواجہ ملک علی سلطان غیاث الدین بلبن کے زمانہ میں ہندوستان آئے۔ 

سلطان غیاث الدین بلبن نے خواجہ ملک کے تقویٰ اور علمی بصیرت کو دیکھ کر اُنھیں چند گائوں پانی پت کے قریب بطور جاگیر عطا کیے اور اُنھیں پانی پت کا قاضی مقرر کیا۔اُن کے والد بزرگوار حضرت خواجہ ایزد بخش ایک صوفی منش انسان تھے۔ مولانا حالیؔ بھی موحد تھے،پابند صوم و صلوٰۃ تھے۔حیدرآباد دکن کے نظام میر عثمان علی خان آصف جاہ سابع نے اُن کی اُردو ادبی خدمات کے انجام کے لیے ماہانہ سو روپیہ وظیفہ مقرر کیا تھا اور وہ پانی پت میں رہ کر اس کی تکمیل میں مصروف تھے۔ وہ اپنے وطن پانی پت میں مستقل سکونت اختیار پذیررہے اور یہاں انہماک و یکسوئی سے اُردو ادب کی تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ 1904 ء میں انھیں شمس العلماء کا خطاب ملا۔ حالیؔ 1837ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ حالیؔ نو سال کی عمر میں یتیم ہوگئے۔ ابتداء میں تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہوسکا۔

 اُنھوں نے خود لکھا ہے کہ مسلسل اور باقاعدہ تعلیم کا موقع کبھی نہیں ملا۔ 17 سال کی عمر میں شادی کردی گئی۔ تعلیم کی ناتمامی کا شدید احساس تھا۔ شادی کے ایک سال بعد گھر والوںکو اطلاع دئیے بغیر دہلی چلے گئے۔ دہلی میں جامع مسجد کے قریب ایک مدرسہ میں پڑھنے لگے۔ یہ دور خواجہ الطاف حسین کی زندگی کا نہایت عسرت اور مفلسی کا تھا۔ وہ نہایت مضبوط ارادوں کے مالک تھے۔ ناموافق حالات میں بھی انھوں نے تعلیم کو جاری رکھا۔ انھوں نے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں معمولی ملازمت اختیار کی۔ آٹھ سال تک نواب مصطفی خاں شیفتہ کے بچوں کے اتالیق رہے۔ چار سال تک پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم رہے۔ یہاں انگریزی سے ترجمہ کی ہوئی کتابوں پر نظرثانی کرتے تھے۔

 اس طرح ان کو انگریزی ادبیات سے واقفیت حاصل ہوئی۔ دہلی کے اینگلو عربک اسکول میں مدرس رہے۔مولاناخواجہ الطاف حسین حالیؔ کی تصانیف :مثنویاں ، مسدس حالیؔ ، شکوہ ہند ،چپ کی داد ، مراثی غالبؔ ، حکیم محمود خان و تباہی دہلی ، مجموعہ نظم حالی ، مجموعہ نظم فارسی ہیں۔ 1۔ مسدس حالیؔ: مولانا حالیؔ کی بے مثل اور معرکہ آرا تصنیف ہے، جسے روز اول سے ہی مقبولیت حاصل ہے۔ مسدس حالی ؔسے ہی ہندوستان میں قومی شاعری کی بنیاد پڑی ہے۔ سرسید احمد خان کہتے تھے کے مسدس حالی نے صنف نظم میں ایک نیا دور پیدا کردیا۔ مسدس حالیؔ میں مسلمانوں کی گذشتہ عظمت کے کارنامے اور موجودہ پستی کا ذکر ایسے انداز میں کیا ہے کہ پتھر دل انسان بھی موم ہوجاتا ہے۔ 

آخر میں انھوں نے اہل اسلام سے عاجزانہ درخواست کیا ہے کہ وہ اٹھیں اور بیدار ہو کر انتھک محنت و کوشش سے اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کریں۔ 2۔ مقدمہ شعر و شاعری: اس تصنیف میں مصنف کا اصلی منشا اصناف سخن میں اصلاح کرنا ہے۔ دائرہ غزل کو وسیع کرنے کیلئے اس میں عاشقانہ ، فلسفیانہ مضامین کے علاوہ قومی اور عوامی مسائل پر مبنی شاعری کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ زبان غزل کو بھی تبدیل کرنے کے حامی ہیں کہ زبان کا دائرہ وسیع ہو۔ قیود عروض کو بھی اٹھادینا چاہتے ہیں ،جو ترقی کی راہ میں سنگ گراں ہے۔ غزل گوئی میں ردیف و قافیہ کو مختصر کرنا چاہتے ہیں۔ ردیف کو چھوڑ کر محض قافیہ پر قناعت کرنے کی صلاح دیتے ہیں کہ شعراء اپنے خیالات کا اظہار آزادی سے کرسکیں۔ 3۔ دیوان ِحالی: اس دیوان میں قدیم و جدید دونوں رنگ کی نظمیں ہیں۔ غزلیں دیگر اصناف سخن سے زیادہ ہیں۔

 طرز جدید کی غزلیں الگ پہچانی جاتی ہیں۔ سب غزلیں جذبات سے لبریز ہیں۔ رباعیات اخلاقی اقدار اور نصائح سے پر ہیں۔ قصائد نئی شان لئے ہوئے ہیں ،جو گراں بہار زیور نشائح سے آراستہ ہیں۔ 4۔ اولیات ِحالی ؔ: خواجہ الطاف حسین حالیؔ کا اُردو ادب میں نہایت بلند اور ممتاز مقام ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے غزل اور قصیدہ میں نیارنگ اختیار کیا۔ سیاسی اور قومی نظمیں لکھیں۔ مولانا حالیؔ اور مولانا آزادؔ کو اُردو شاعری کے جدید رنگ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ مولانا حالیؔ ایک اعلی نثار بھی تھے۔ اُن کی تصانیف ِنثر حسب ذیل ہیں:(۱) یادگار غالبؔ (۲) حیات جاوید (۳) تریاق مسموم(۴) علم طبقات الارض(۵) مجالس النسا ء (۶) حیات ِسعدیؒ (۷) مضامین ِحالیؔ۔ 1۔ یادگار غالبؔ : حالیؔ کی یہ تصنیف مرزا اسد اللہ خان غالب ؔکی ایک مستند سوانح ہے۔

 اس سے بہتر کتاب کسی نے غالبؔ پر نہیں لکھی۔ اس میں غالبؔ کے زندگی کے حالات ، واقعات ، لطائف نہایت دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں۔ اُن کے فارسی اور اُردو کلام پر ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ حالی ؔنے یہ کتاب تصنیف کرکے حقِ شاگردیٔ غالب ؔادا کیا۔ 2۔ حیاتِ جاوید : اس کتاب میں سرسید احمد خاں کی سوانح بیان کی ہے۔ 3۔ مجالس ِالنسا ء : مجالس النسا لکھنے پر حکومت ہند نے مولانا حالیؔ کو چار سو روپیہ انعام دیا۔ مولانا خواجہ الطاف حسین حالی ؔکا انتقال70 سال کی عمر میں31دسمبر 1914 ء میں اپنے آبائی وطن پانی پت میں ہوا اور وہیں اُن کی تدفین ہوئی۔ 

٭

Post a Comment

0 Comments