عالم اسلام کی معروف شخصیت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو انتقال ہو ا ۔مولانا موصوف ۱۹۱۳ء میں پید ا ہوئے۔ ان کی شخصیت گویا سوسالہ دور کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ تاریخ میں وہ اس دور کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ ان کو بلاشبہ صدی کی شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ مولانا سید ابولحسن علی ندوی بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات کے مالک تھے۔
وہ ایک ممتاز عالم تھے۔ دارلعلوم ندوۃ العلماء (لکھنو) کوان کے زمانہ میں غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔انھوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ اور اسی طرح دوسرے بہت سے اداروں کی کامیاب قیادت کی۔ بیسوی صدی میں اٹھنے والی تقریباً تمام بڑی بڑی اسلامی تحریکوں سے ان کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق تھا۔ وہ ہر حلقہ اور ہر گروہ میں یکساں طورپر عزت و اعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ان کوبلا اختلاف ایک بین الاقوامی شخصیت کہا جا سکتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اپنی قوم میں نمائندہ قوم کی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ مولانا موصوف کو یہی حیثیت حاصل تھی۔
ایسا شخص کسی قوم کے لئے بے حد قیمتی ہے ۔اپنی اس حیثیت کی بنا پر وہ پوری قوم کے لئے شیر ازہ اتحاد بن جاتا ہے ۔وہ اپنی قوم اور دوسری قوموںکے درمیان عملاََ رابطہ کادرجہ حاصل کرلینا ہے۔وہ تمام لوگوں کے لئے مرجع قوم بن جاتا ہے،یعنی ایک ایسا شخص، جس سے پوری قوم کے معاملہ میںرجوع کیاجاسکے وغیرہ۔مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ذات میں یہ تمام حجتیں درجۂ کمال جمع ہوگئی تھیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا کارنامہ ٔحیات تقریباًپوری صدی پر پھیلا ہوا ہے ۔
وہ اپنی ذات میں ایک متحرک صدی تھے۔ صدی کی آخری تاریخ کو یہ متحرک شخصیت خاموش ہو گئی ،وہ انسانوں سے ہو کر اپنے رب سے جاملی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے ۔ان کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود تھیں ۔مولانا سیدمناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میںجو کام اکادمی کر تی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتا ہے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی اس قوم کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انھوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا۔مولانا موصوف نے ایک طرف دارالعلوم ندوۃ العلماء جیسے ادارہ کے ذریعہ مسلمانوں کو علم دین سے بہرہ ور کرے کی کوشش کی اور دوسری طرف موسسہ مطالعات و تحقیقات اسلامی لگز مبرگ جیسے اداروں کے ذریعہ لوگوں کے لئے عصری معرفت کا سامان کیا ۔
ایک طرف انھوں نے اپنی موثر تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں عملی جوش کو ابھارا اور دوسری طرف انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انھیں گہرے علمی شعور سے آشنا کیا۔ایک طرف انھوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے مسلمانوںکے ملی تحفظ کا انتظام کیا تو دوسری طرف پیام انسانیت کی تحرک کے ذریعہ انھیں داعی کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوش کی ۔ایک طرف انھوں نے رابطۃ العالم الاسلامی کے ایک ا ہم رکن کی حیثیت سے عالمی مسلم اتحاد کی کوشش کی اور دوسری طر ف رابطہ ادب اسلامی کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں کے اندر علم و ادب کے حصول کا شوق ابھارا ۔
ایک طرف انھوں نے مدارس دینیہ کے قیام کے ذریعہ قدیم علوم کو زندہ کیا اور دوسری طرف آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سنٹر کے صدر کی حیثیت سے مسلمانوں کے اندر جدید علوم کے ماہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا سید ابولحسن علی ندوی کی ذات بہت سی اعلیٰ قدروں کا نمونہ بن گئی تھی۔انھیں میں سے ایک چیز وہ ہے، جس کی بابت کہا گیاہے کہ دنیا سے بے نیاز ہوجائو دنیا خود تمہاری طرف دوڑ کر آئے گی۔ مولانا موصوف دنیا کی چیزوں سے بے نیاز ہو گئے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا نے خود اپنے آپ کو ان کے حوالے کر دیا۔ایک بار ایک عرب سلطان ندوۃالعلماء لکھنو آئے ان کے استقبالیہ میں جلسہ ہوا اس میں تقریر کرتے ہوئے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے ایک عرب بزرگ کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا :نعم الامیر علی باب الفقیر و بئس الفقیر علی باب امیر۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو اعلیٰ دعہدوںپر فائز کیا گیا۔ ان کو بڑے بڑے ایوارڈ دیئے گئے، مثلاًکنگ فیصل ایوارڈ اسی طرح برونائی اور عرب امارات کے خصوصی ایوارڈ وغیرہ ،لیکن وہ ساری زندگی اہل دنیا سے بے نیاز رہے ،مگر اہل دنیا نے خود اپنی ساری متاع ان کے سامنے پیش کر دی ۔مولانا موصوف کی ذات اس حقیقت کی ایک عملی مثال تھی کہ مال عہدہ عزت سب انسان کے تابع ہیں نہ کہ انسان ان چیزوں کے تابع ہے۔
انسان اگر اپنی انسانیت کو بلند کرلے تو بقیہ تمام چیزیں اپنے آپ اس کو حاصل ہو جائیں گی۔ بغیر اس کے کہ اس نے ان چیزوں کے لئے براہ راست جدوجہد کی ہو۔ ایک شاعر نے کسی کے بارے میں کہاتھاکہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اپنی ذات میں ایک عالم تھے۔ ان کی موت بلاشبہ موت العالِم موت العَالم کی مصداق ہے ،تاہم قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ مولانا موصوف نے اپنے پیچھے اپنے شاگردوں کی عظیم تعداد چھوڑی ہے ۔یقین ہے کہ مولانا موصوف کے بعد ان کی تربیت سے فیض یافتہ یہ حضرات اس عربی شعر کا مصداق ثابت ہو ںگے ،جب ہمار اایک سردار وفات پاتا ہے، تو دوسرا سردار کھڑا ہو جاتاہے۔
٭
مولانا وحید الدین خان
0 Comments