Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

اردو شاعری کا مردِ قلندر، آتشؔ کے حالاتِ زندگی

خواجہ حیدر علی آتشؔ کے بزرگوں کا وطن بغداد تھا۔ آباؤاجداد میں کوئی صاحب تلاش معاش میں دہلی آئے اور پرانے قلعے میں آباد ہوئے۔ آتشؔ کے والد خواجہ علی بخش شجاع الدولہ کے عہد میں دہلی سے فیض آباد آئے اور محلہ مغل پورہ میں آباد ہوئے۔ آتشؔ یہیں پیدا ہوئے۔ آتشؔ کے متعلق مختلف تذکروں میں جو باتیں لکھی ہیں ان سے ذیل کی باتیں معلوم ہوتی ہیں : ابھی جوان نہیں ہوئے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ کسی کا سایہ سر پر نہ رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم ادھوری رہ گئی۔ وقت آوارگی میں گزرتا تھا۔ وقت زیادہ تر فوج کے نوجوانوں کی صحبت میں گزرتا تھا اس لیے بانکے اور سرکش ہو گئے۔ مغل بچوں کی صحبت میں تیغ زنی بھی سیکھ لی اور اس میں خاصی مہارت پیدا کر لی۔ 

مزاج کا یہ حال تھا کہ بات بات پر تلوار کھینچ لیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ چھوٹی سی عمر میں تلواریے مشہور ہو گئے۔ یہ زمانہ ایسا تھا کہ بانکپن کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اس لیے بانکپن کے انداز نے اور بھی ترقی کی اور یہ ان کا مستقل مزاج بن گیا۔ آتش وجیہہ، گورے چٹے اور خوبصورت نوجوان تھے، قد لمبا اور بدن چھریرا تھا۔ زندگی توکل کے عالم میں گزاری پھر بھی گھوڑا ضرور بندھا رہتا تھا۔ سپاہیانہ اور رندانہ وضع کے ساتھ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ بڑھاپے تک تلوار باندھتے تھے۔ سر پر کبھی زلف ہوتی اور کبھی حیدری چٹیا۔ سر پر بانکی ٹوپی رکھتے تھے جو لبوں تک جھکی رہتی تھی، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ آتشؔ تہمد باندھتے تھے۔

ہاتھ میں ڈنڈا رہتا تھا۔ اس ڈنڈے میں سونے کا چھلا ٹکا ہوتا تھا۔ سچے کام کی سلیم شاہی جوتی پہنتے تھے۔ بعض لوگوں نے آتشؔ کی آزادانہ زندگی کی تصویر یوں کھینچی ہے کہ انہیں کبوتروں کا بہت شوق تھا، جس حجرے میں رہتے تھے اس میں جھلنگا پلنگ بچھا ہوا ہوتا نیچے بوریے کا فرش ہوتا۔ دیواروں میں کبوتروں کی کابکیں ہوتیں۔ آتشؔ اپنے حجرے میں بیٹھتے تو کبوتر اڑ اڑ کر آتے۔ کبھی سر پر بیٹھتے اور کبھی گردن پر اور یہ ان کی اس حرکت سے خوش ہوتے، امیرزادے بھی آتے تو اسی فرش پر بیٹھتے۔ آتشؔ کو فیض آباد کے شاعرانہ ماحول میں رہ کر شاعری کا شوق ہوا تو فارسی اور اردو دونوں میں شاعری شروع کی۔ ایک طرف ان کا بانکپن، دوسرے ان کی شاعری۔ 

نواب محمد تقی خاں شاعری اور سپہ گری دونوں کے قدردان تھے، اس لیے آتشؔ کو ملازم رکھ لیا۔ نواب صاحب شاہان اودھ کے وزیر تھے۔ نواب غازی الدین حیدرؔ کے عہد میں ملازمت چھوڑ کر لکھنؤ چلے آئے۔ آتشؔ بھی ان کے ساتھ لکھنؤ آ گئے۔ لکھنؤ آ کر آتشؔ کو نئی طرح کا ماحول ملا۔ اس ماحول کا اثر تھا کہ مطالعہ کا شوق ہوا اور دن رات علمی مشاغل میں گزرنے لگے۔ اسی زمانہ میں مصحفیؔ کی شاگردی اختیار کی۔ مصحفیؔ نے اپنے تذکرے میں ان کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے اور وجیہہ اور مہذب الاخلاق جوان کہا ہے۔ شاعری کے متعلق بھی پیشین گوئی کی ہے کہ زندہ رہا تو نام پیدا کرے گا۔ لکھنؤ پہنچنے کے کچھ دن بعد نواب محمد تقی خاں بہادر کا انتقال ہو گیا۔ آتشؔ نے اس کے بعد کسی کی ملازمت نہیں کی۔ بادشاہ کے یہاں سے وظیفہ ملتا تھا۔ اس پر گزر اوقات ہوتی تھی۔ 

ایک چھوٹا سا کچا مکان خرید لیا تھا۔ اسی میں رہتے تھے۔ یہ مکان خرید لینے کے بعد ایک شریف خاندان میں شادی کر لی۔ بیوی بڑی نیک اور سگھڑ عورت تھیں۔ آتشؔ کی جو تھوڑی سی آمدنی تھی اس سے گھر چلاتی تھیں۔ ان بیوی سے آتشؔ کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام محمد علی رکھا۔ محمد علی بھی شاعر تھے اور جوشؔ تخلص کرتے تھے۔ عین عالم جوانی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اخیر عمر میں ان کی بینائی جاتی رہی تھی۔ اسی زمانے میں ان کے بیٹے کی شادی ہوئی اور اس شادی کا سارا انتظام ان کے شاگرد جے دیال نے کیا۔ خرچ بھی جے دیال ہی نے کیا۔ بڑی دھوم دھام کی شادی ہوئی، تمام احباب، رشتے دار اور شاگرد جمع ہوئے۔ جب بیٹا دولہا بن کر سامنے آیا تو آتش پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔

لوگوں نے کہا، خدا نے آپ کو بیٹے کا سہرا دکھایا، یہ خوشی کا وقت ہے، اللہ کا شکر ادا کیجیے۔ رو کر بدشگونی نہ کیجیے۔ کہنے لگے ’’اس بات پر روتا ہوں کہ محمد علی کی ماں زندہ نہیں ہیں۔ وہ ہوتیں تو بیٹے کا سہرا دیکھ کر کس قدر خوش ہوتیں۔ اللہ نے میری آنکھیں چھین لیں، دولہا کی صورت تک نہیں دیکھ سکتا۔ بھلا یہ خوشی کا کیا موقع ہے۔ خیر، اللہ تم لوگوں کو مبارک کرے۔‘‘ آتش ایک دن اچھے خاصے بیٹھے تھے کہ طبیعت بگڑی اور دیکھتے دیکھتے انتقال ہو گیا۔ خواجہ محمد علی جوشؔ باپ کے مرنے کے وقت زندہ تھے۔ باپ کے مرنے کا اس قدر صدمہ ہوا کہ مشاعروں میں آنا جانا ترک کر دیا۔ کوئی ایک سال زندہ رہے اورہیضے کے مرض میں انتقال کیا۔ لکھنؤ میں آتشؔ کے بے شمار شاگرد تھے۔ ان میں سے بعض بہت مشہور ہیں۔ ان میں نواب مرزا شوقؔ، پنڈت دیا شنکر نسیمؔ، واجد علی شاہ اخترؔ، نواب سید محمد خاں رندؔ، میر وزیر علی حیاؔ، دوست علی خلیلؔ اور آغا حجو شرفؔ زیادہ معروف ہیں۔

ظہیر الدین احمد


Post a Comment

1 Comments

  1. Merkur 37C Safety Razor Review – Merkur 37C
    The Merkur 37c is an excellent short handled deccasino DE safety razor. poormansguidetocasinogambling It jancasino.com is more febcasino suitable for both filmfileeurope.com heavy and non-slip hands and is therefore a great option for experienced

    ReplyDelete