دُکھ میں نِیر بہا دیتے تھے سُکھ میں ہنسنے لگتے تھے
دُکھ میں نِیر بہا دیتے تھے سُکھ میں ہنسنے لگتے تھے
سیدھے سادے لوگ تھے لیکن ، کِتنے اَچھے لگتے تھے
نفرت چَڑھتی آندھی جیسی ، پیار اُبلتے چَشموں سا
بَیری ہوں یا سَنگی ساتھی ، سارے اپنے لگتے تھے
بہتے پانی دُکھ سُکھ بانٹیں ، پیڑ بڑے بُوڑھوں جیسے
بچّوں کی آہٹ سُنتے ہی ، کھیت لہکنے لگتے تھے
ندیا ، پَربت ، چاند ، نگاہیں، مالا ایک کئی دانے
چھوٹے چھوٹے سے آنگن بھی، کوسوں پھیلے لگتے تھے
ندا فاضلی
0 Comments