Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے


آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے

آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے

جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
نشئہ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں

جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون

تشنگی نفس کے جزبوں کی بجھانے کے لئے
نوع انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون

ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
ان سے ہر سانس میں تحریک بغاوت ہے مجھے

تم ہنسو گے کہ یہ کمزور سی آواز ہے کیا
جھنجھنایا ہوا، تھرّایا ہوا ساز ہے کیا

جن اسیروں کے لیے وقف ہیں سونے کے قفس
ان میں موجود ابھی خواہشِ پرواز ہے کیا

آہ! تم فطرتِ انسان کے ہمراز نہیں
میری آواز، یہ تنہا میری آواز نہیں

انگنت روحوں کی فریاد ہے شامل اس میں
سسکیاں بن کے دھڑکتے ہیں کئی دل اس میں

تہ نشیں موج یہ طوفان بنے گی اک دن
نہ ملے گا کسی تحریک کو ساحل اس میں

اس کی یلغار مری ذات پہ موقوف نہیں
اسکی گردش میرے دن رات پہ موقوف نہیں

ہنس تو سکتے ہو، گرفتار تو کر سکتے ہو
خوار و رسوا سرِ بازار تو کر سکتے ہو

اپنی قہار خدائی کی نمائش کے لئے
مجھے نذرِ رسن و دار تو کر سکتے ہو

تم ہی تم قادرِ مطلق ہو، خدا کچھ بھی نہیں؟
جسمِ انساں میں دماغوں کے سوا کچھ بھی نہیں

آہ یہ سچ ہے کہ ہتھیار کے بل بوتے پر
آدمی نادر و چنگیز تو بن سکتا ہے

ظاہری قوت و سطوت کی فراوانی سے
لینن و ہٹلر و انگریز تو بن سکتا ہے

سخت دشوار ہے انسان کا مکمّل ہونا
حق و انصاف کی بنیاد پے افضل ہونا

مولانا عامرؔ عثمانی

Post a Comment

0 Comments