Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

طویل ترین اشاعت کی حامل تحریر " دیوتا " کے خالق ، محی الدین نواب صاحب

سسپنس ڈائجسٹ میں طویل ترین اشاعت کی حامل تحریر " دیوتا " کے خالق ، محی الدین نواب صاحب تھے. یہ سیریز ٹیلی پیتھی کے ماہر، فرہاد علی تیمور کی روداد تھی کہ جس کو مسلسل 30 سال تک قسط وار لکھا گیا. (بنام محی الدین نواب، 4 ستمبر 1930 تا 6 فروری 2016). طویل ترین قسط وار کہانی " دیوتا " ایک مقبول ترین سلسلہ تھا جو 1977 سے آغاز کر کے 2010 تک مسلسل ہر ماہ لکھا گیا. یہ اردو ادب کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا طویل ترین قسط وار ناول تھا کہ جس کو پڑھنے والوں نے اپنی دو سے تین نسلیں گزار دیں. جب یہ الگ کتابی صورت میں شائع ھوا تو اسکی 57 جلدیں بنیں. محی الدین نواب صاحب نے اتنا کچھ کیسے لکھ دیا ؟ کیونکہ جتنا انہوں نے لکھا ہے، اتنا لکھا ہی نہیں جا سکتا، مگر اس سے بڑا اسرار، انکی اپنی زندگی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ خود کو راز میں رکھا اور بہت کم لوگوں کو، انکی ذات کے بارے میں علم ھو گا، حتی کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی، انکی تصویر تک سے آگاہ نہیں تھے، کیونکہ محی الدین صاحب اپنی ذات کو خفی رکھنا پسند کرتے تھے۔

آج ھم ان کے بارے میں ایسی باتیں بھی سامنے لائیں گے کہ جو بہت کم لوگ جانتے ہونگے . شہرہ آفاق مصنف ، محی الدین نواب صاحب ، بنگال کے شہر کھڑگ پور میں پیدا ہوئے . وہ نسلی اعتبار سے بنگالی مسلم تھے . عام بنگالیوں کی طرح ، وہ چھوٹے قد و قامت ، موٹی آنکھوں والے ، سانولی رنگت کے حامل تھے ، کئی زبانوں کے ماہر اور بولنے میں بہت شیریں لکھنوی انداز کی اردو بولتے تھے، ہند و پاک کی تقسیم کے بعد وہ بہار سے پاکستان (1970 میں) لاہور چلے آئے کہ بہار کو ہندوستانی علاقہ بنا دیا گیا تھا، ان کی پہلی شادی چھوٹی عمر میں ہی ھو چکی تھی لاہور آکر انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، علم و ادب سے محبت اور گہری وابستگی ، ان کے خون میں شامل تھی اور اسی کام کو ہی انہوں نے ذریعہ روزگار بھی بنایا اور بہت سی تحریریں لکھیں اور پبلشرز کے حوالے کیں، مگر جیسا کہ کچھ پبلشرز کا حال ہے، بہت سوں نے نیا ادیب اور نئی تحریر کا کہہ کر ٹرخا دیا اور کئی نے بہت کم معاوضہ دے کر کہانی ہتھیانے کا بھی قصد کیا . ( کچھ پبلشرز آج بھی یہی گر استمال کر رھے ہیں معزرت کے ساتھ) 

کم معاوضہ کے باوجود ، نواب صاحب نے بہت کچھ لکھا، اصل نام سے بھی اور دیبا کے فرضی نام سے بھی، مگر انہیں کوئی پزیرائی نہ مل سکی . انہوں نے کراچی کے پبلشنگ اداروں سے رابطہ کیا تو مقبول ترین سسپنس ڈائجسٹ کے مدیر اعلی، معراج رسول صاحب نے ان میں گوہر خاص دیکھ لیا . انہوں نے نواب صاحب کو کراچی بلوا لیا اور زندگی بھر کے لئے ، سسپنس ڈائجسٹ میں بہترین معاوضہ پر لکھنے کی پیشکش کی جو ساری عمر قائم رہی اور نواب صاحب نے ، دیوتا کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ہی متعدد ملک گیر مقبولیت کی حامل کہانیاں بھی لکھیں کہ جو ظاہر ہے مالی خوشحالی کے بعد ، لکھنی آسان بھی تھیں. دیوتا کے ہر ماہ لکھے ، 30 سالہ ریکارڈ کے بعد ، انہوں نے دیگر موضوعات پر بھی ادبی و افسانوی کتب لکھیں انکا انداز بیان اور الفاظ و احساسات کی چاشنی باکمال تھی اور انکی تعداد بھی اتنی زیادہ تھی کہ سن کر بھی حیرانگی ہوتی ہے. اس پر اگلی سطور میں بات کی جائے گی. 

کراچی آمد کے بعد خوشحالی کا دور آیا تو محی الدین صاحب نے پہ در پہ مزید شادیاں کئیں . انکی چار شادیاں اور تیرہ بچے تھے ، ایک جواں سال بچے کی بے وقت موت پر وہ بےحد افسردہ بھی تھے، وہ سسپنس ڈائجسٹ کی قسط وار کہانی کا ماہانہ معاوضہ 50 ہزار لیا کرتے تھے اور دیگر فی کہانی 40 ہزار، یوں انہوں نے اچھی علمی زندگی کے ساتھ ساتھ ، کامیاب مالی زندگی بھی گزاری . انکی پہلی کتاب 23 سال کی عمر میں لکھی گئی اور 86 سال کی عمر تک یہ سلسلہ جاری رہا. اب بتاتے ہیں کہ ایک انسان ، اتنا زیادہ کیسے لکھ سکتا ہے . تو جناب من ! نواب صاحب ، اپنی ساری کہانی کی روداد ایک چھوٹے سے ٹیپ ریکارڈ میں بھر لیا کرتے تھے کہ جسے کشور سلطانہ نامی ایک دبلی پتلی سی ، نازک اندام لڑکی ، الفاظ کا روپ دیا کرتی تھی ، مطلب الفاظ گری کی ساری تعریف ، کشور سلطانہ کے نام جاتی ہے ، اس نازک اندام لڑکی نے ، اپنا بھی بہت سا کام لکھا کہ جس کی تحریری جھلک ، نواب صاحب کے جیسی دکھتی ہے.

نواب صاحب کی تمام تر توجہ لکھنے کی طرف تھی تو صحت کے بگڑنے کا پتا ہی نہیں چلا. وہ دمہ کے مرض میں مبتلا ھو گئے کہ جو کبھی شدید کھانسی کا سبب بھی بنتا. وہ بہت بار سوات بھی رہے تاکہ بحالی صحت ھو سکے. اب کچھ تذکرہ انکی شہرہ آفاق کہانیوں کا ھو جائے کہ جن کی مثال بہت مشکل سے ملتی ہے. دل پارہ پارہ ، آدھا چہرہ ، ایمان کا سفر ، کچرا گھر۔

بشکریہ : سسپنس ڈائجسٹ  

Post a Comment

0 Comments