جب مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کی آبادی ساڑھے تین سے چار کروڑ نفوس پر مشتمل تھی تو اوسط درجے کی شاعری یا نثری کتاب کا پہلا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا تھا۔ جب آبادی آٹھ کروڑ ہو گئی تو پہلا کتابی ایڈیشن بھی پانچ ہزار سے گھٹ کر ایک ہزار نسخوں تک آن پہنچا۔ آج پاکستان کی آبادی 22 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ چنانچہ 99 فیصد ادبی کتابوں کا پہلا ایڈیشن اوسطاً پانچ سو تک گر چکا ہے اور بہت سے پبلشر تو ڈھائی سو کا ایڈیشن بھی شائع کرنے پر راضی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے کراچی کے معروف شاعر صابر ظفر، صدر کے علاقے میں اچانک مل گئے۔ چھوٹتے ہی بولے یار تمہیں دیکھ کر خوشی اس لیے بھی ہو رہی ہے کہ اب ایسا شخص بھی آسانی سے نہیں ملتا جسے بندہ کم ازکم اپنی نئی کتاب ہی پڑھنے کے لیے دے سکے۔ آؤ تمہیں چائے پلاتا ہوں۔ کتاب بھی دوں گا۔
عام طور پر ہم ناخواندگی اور جہالت کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ناخواندہ وہ شخص ہے جسے پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور وہ ذرا سی کوشش سے پڑھنا لکھنا سیکھ سکتا ہے۔ ناخواندہ کبھی بھی اپنی ناخواندگی کا دلیلی دفاع نہیں کرتا بلکہ اکثر سیدھے سیدھے اعتراف کر لیتا ہے کہ فلاں فلاں مجبوری یا والدین کی غفلت کے سبب وہ سکول یا مدرسے میں نہ جا سکا مگر خواہش زندہ ہے۔ جبکہ جہالت کا خیمہ نیم خواندگی کی زمین پر کج بحثی کے بانس اور ہٹ دھرمی کی طنابوں کے بغیر لگانا ممکن نہیں۔ ناخواندہ کی آواز احساسِ کمی کے سبب دھیمی ہو سکتی ہے مگر جہالت کی بلند آہنگی کا مقابلہ فی زمانہ صاحبانِ علم کی معنی خیز خاموشی بھی نہیں کر سکتی۔ اسی لیے اگر ہم اپنے ارد گرد بغور اور مسلسل دیکھیں تب کہیں یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اہلِ علم تو اپنا دامن بازارو دانش کے چھینٹوں سے بچاتے ہوئے اکثر گوشہِ عافیت میں نظر آتے ہیں اور جہالت اور وہ بھی دو نمبر جہالت گلی گلی سینہ پھلائے پھرتی ہے۔
مادی کسوٹی پر ناپئے تو علم خسارے کا سودا اور جہالت منافع بخش ہے۔ اعلیٰ ترین سے ادنیٰ ترین شعبہ پھٹک لیں۔ جہالت کی بہار نظر آئے گی۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی، میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ہر شاخ پے الو بیٹھا ہے۔ مگر انجامِ گلستاں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب ریڈیو، ٹی وی چینل یا اخبار میں کام کرنے کے لیے قابلیت یا پیشہ ورانہ صلاحیت کا کم ازکم معیار مقرر تھا اور اس معیار پر پورا نہ اترنے کے باوجود ان شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے والے کے بارے میں سب جانتے تھے کہ یہ کونسی سیڑھی استعمال کر کے آیا ہے۔ خود اس بے چارے کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ اب وہ آ ہی گیا ہے تو آس پاس والوں سے شرما شرمی تھوڑا بہت سیکھ لے۔ پھر انقلاب آ گیا۔ آج نیوز ڈیسک، سکرین یا سٹوڈیو میں جس عالمانہ یا اینکرانہ مخلوق کا بول بالا ہے۔ ان میں اکثر تو جہالت کی مروجہ تعریف پر بھی پورے نہیں اترتے۔
مقابلہ اس قدر سخت اور گلا کاٹ ہے کہ سادہ پڑھا لکھا تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ چنانچہ میڈیا میں جانے کے خواہش مند نئے لڑکے لڑکیوں سے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کسی سیاسی، مزاحیہ یا مذہبی پروگرام کے اینکر بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں تو آپ کو جان توڑ محنت کرنا ہو گی۔ بھول جائیں کہ آپ کے اساتذہ نے آپ کو کیا سکھایا یا آپ نے کونسی کتابوں اور ادب کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہ سب اب نہیں چلتا۔ آپ کو اس انڈسٹری میں قدم جمانے کے لیے خود کو پہلے ڈی ایجوکیٹ اور پھر ری ایجوکیٹ کرنا ہو گا۔ کیا آپ بظاہر قبول صورت ہیں؟ چیخ چیخ کے کچھ بھی بول سکتے ہیں؟ خود کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے مسلسل مطالعے کی علت میں تو مبتلا نہیں؟ کیا آپ انگریزی، اردو، سندھی، پشتو، بلوچی، پنجابی، سرائیکی سمیت کوئی بھی زبان درستی کے ساتھ لکھنے اور بولنے کے عارضے کا تو شکار نہیں؟
کیا آپ کسی سنجیدہ موضوع کو سستے فقروں کی مدد سے دلچسپ اور عجیب بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا آپ دو مرغے کیسے لڑوائے جاتے ہیں کے فن سے واجبی طور سے واقف ہیں؟ کیا آپ وقت پڑنے پر کم از کم ناگن ڈانس یا بندر کی نقالی کر سکتے ہیں؟ کیا آپ چھت پھاڑ ریٹنگ کے لیے جانوروں اور پرندوں کی آوازیں نکال سکتے ہیں؟ خدانخواستہ آپ وزن میں شعر پڑھنے کے روگی تو نہیں؟ کیا آپ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے بجائے تہذیبی عاجزی کا پتلا تو نہیں سمجھتے؟ اگر آپ مندرجہ بالا معیارات میں سے کم ازکم پچاس فیصد پر پورا اترتے ہیں تب تو آپ کو سکرین پر آ کر مشہور ہونے کا خواب دیکھنے کا حق ہے۔ ورنہ بھول جائیں اور خون کے گھونٹ پیتے رہنے کے بجائے کسی اور شعبے میں قسمت آزمائیں۔ یہ ہے وہ ثمر جو ہم نے 74 برس کے سفر میں بہت لگن اور محنت سے حاصل کیا ہے۔ اگر یہ بھی نہ رہا تو پھر کیا رہے گا؟
0 Comments