شہاب نامہ کے خالق قدرت اللّٰہ شہاب نے اپنی خود نوشت میں قائداعظم سے پہلی ملاقات کا واقعہ تحریر کیا ہے جس میں وہ ایک خفیہ دستاویز کے ساتھ قائداعظم کی خدمت میں پہنچے تو قائد اعظم نے مدعا سننے کے بعد دوبارہ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ شہاب نامہ میں مصنف نے اہم شخصیات کی اس طرح تصویر کشی کی ہے کہ چھوٹے سے واقعے یا وقوعے سے قاری کردار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ شہاب نامے میں مصنف نے قائداعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتیں، قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آجاتی ہے۔
مصنف بتاتے ہیں کہ یہ اپریل 1947 کی بات ہے کہ جب ہندوستان کی بساط سیاست پر مسلمانوں کے خلاف چالیں چلی جارہی تھیں، ایسے میں اُن کے ہاتھ خفیہ دستاویز لگی جس میں مسلمان افسران کو غیر قانونی طور پر عہدوں سے تبدیلی کا حکم دیا گیا تھا، اور اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ہوم، فنانس اور پریس ڈپارٹمنٹ میں ہندو افسران کو بھرتی کیا جائے۔ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’یہ حکم نامہ یا سرکلر پڑھ کر شدید دھچکا لگا، اور دل میں عجیب سی کشمکش ہوتی رہی، تاہم جلد ہی قائداعظم سے ملاقات کی نیت سے دہلی کے سفر پر روانہ ہو گیا۔‘ انہوں نے لکھا کہ قائد اعظم کے پرائیوٹ سیکرٹری کے- ایچ خورشید سے منت سماجت کرنے کے بعد بڑی مشکل سے دو روز بعد قائداعظم تک رسائی حاصل کی، وہ اپنے کمرے میں کچھ لکھنے میں مصروف تھے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’قائداعظم نے فارغ ہو کر ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور کہا کہ کیا بات ہے؟ قدرت اللّٰہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’قائد کے سوال پر ایک ہی سانس میں مَیں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں قدرت اللّٰہ شہاب ہوں اور اس وقت اڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکرٹری کے عہدے پر تعینات ہوں۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے کانگریس کا سرکلر قائداعظم کی خدمت میں پیش کیا وہ بڑے سکون سے پڑھتے رہے یہاں تک کہ ان کے جذبات میں ذرا سا بھی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔‘ قائد اعظم سرکلر پڑھ کر فارغ ہوئے تو قدرت اللّٰہ شہاب کو سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا کہا، اور پوچھا کہ یہ تم نے کہاں سے حاصل کی؟
جواباً میں نے تمام روداد سنائی جس پر قائداعظم نے کہا، ویل ویل ، تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس خفیہ دستاویز کی ہر کاپی پر نمبر درج ہے، تمہیں اس حرکت کے کیا نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں کیا تم اس سب کے لیے تیار ہو؟ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جی سر میں اس کے لیے تیار ہوں‘ آخر میں انہوں نے جانے کی اجازت دی اور شفقت بھرے لہجے میں کہا کہ ’بوائے دوبارہ ایسا نہ کرنا۔‘
0 Comments