Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

یار ناصر زیدی، تم بھی چلے گئے

ممتاز شاعر، ادبِ لطیف کے ایڈیٹر اور میرے بچپن کے دوست ناصر زیدی بھی اِس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے، میری اس کی دوستی 65 برس پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم ماڈل ہائی اسکول ماڈل ٹائون لاہور میں چھٹی جماعت میں داخل ہوئے، ہمارے اسکول فیلوز میں شمشاد احمد خاں سابق سیکریٹری خارجہ، عباس حیدر زیدی سابق سفیر پاکستان، افسانہ نگار ذکاء الرحمٰن اور کتنے ہی دوسرے نامور لوگ تھے، جن کی اس وقت مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں مگر میری یاری ناصر زیدی سے بہت مستحکم رہی، اس کی وفات سے صرف کچھ عرصہ قبل اس سے ملاقات نہ ہو سکی کہ وہ اپنی علالت کے باعث اپنے بیٹے کے پاس اسلام آباد منتقل ہو گیا تھا۔ میں اس کی شادی میں بھی شریک ہوا تھا مگر جنازے میں کورونا کے سبب اسلام آباد نہ جا سکا، مجھے کورونا سے مزید نفرت ہو گئی!

ناصر شروع میں اپنا پورا نام سید ناصر رضا عشرتؔ زیدی لکھا کرتا تھا، عشرتؔ اس کا تخلص تھا، اس کے پورے نام کے ساتھ جب میں اسے مخاطب کرتا تو ایک عدد ’’المعروف‘‘ بھی لگاتا تھا اور اس ’’المعروف‘‘ کا ذکر یہاں چنداں ضروری نہیں، میں اور ناصر شروع ہی سے شعر و ادب کے ساتھ متھا لگاتے تھے۔ صبح اسکول میں کلاسوں کے آغاز سے پہلے سارے طالبعلموں کو اسکول گرائونڈ میں جمع ہونے کا حکم ہوتا تھا جہاں کوئی تقریر کرتا تھا، کوئی شاعری سناتا تھا، ایک دن ذکاء الرحمٰن نے وہاں ایک بہت خوبصورت نظم سنائی جس کے ایک دو بند مجھے ابھی تک یاد ہیں۔

سن اے قہاری! مجرم ہیں
سن اے جباری! مجرم ہیں

حق گوئی ہی ہے جرم اگر
تو یہ بھی بھاری مجرم ہیں

ہم یہیں پہ ہیں، مفرور نہیں
پھر ہم کو جواب کوئی نہیں

کچھ کہنا بھی منظور نہیں
تعزیر کو ہم خود حاضر ہیں

ہم لوگ اقراری مجرم ہیں
سن اے جباری! مجرم ہیں

تقریب کے بعد میں اور ناصر زیدی ذکاء الرحمٰن کے پاس گئے، وہ ہم سے سینئر تھا چنانچہ ہم نے ادب آداب ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی نظم کی بہت تعریف کی، ذکاء نے اس کے جواب میں بہت مشفقانہ انداز میں ہمیں مخاطب کر کے کہا ’’تم لوگ میرے پاس آتے رہا کرو، میں جب تک یہاں ہوں، مجھ سے کچھ سیکھ لو‘‘۔ یہ تو کالج کے زمانے میں مجھے پتا چلا کہ یہ نظم نعیم صدیقی کی تھی جو جماعت اسلامی کے رہنما اور بہت عمدہ شاعر تھے۔ میں اپنے دیرینہ مرحوم دوست کے ساتھ اپنی اس دور کی یادیں شیئر کرتے ہوئے اپنے ایک ذی وقار استاد ماسٹر محمد حسین تاباں کا ذکر بھی ضرور کروں گا۔ وہ اپنے لیکچر کے دوران میری اور ناصر کی عدم دلچسپی اور ہماری باہمی شرارتوں سے بہت نالاں تھے۔ ایک روز جلال میں آ گئے اور ہمیں مخاطب کر کے کہا ’’تم دونوں میری ایک بات نوٹ کر لو، بڑے ہو کر تم گنڈیریاں بیچو کرو گے گنڈیریاں۔ مجھے یقین ہے کہ آج ان کی روح اپنی پیش گوئی جزوی طور پر صحیح نہ نکلنے پر بہت خوش ہو رہی ہو گی۔ 

بہرحال میٹرک کے بعد میں نے ایم اے او کالج میں داخلہ لے لیا اور ناصر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں ایف اے کی کلاس میں داخل ہو گیا، یہاں تک تو کنفرم ہے کہ اس نے ایف اے میں داخلہ لیا تھا، مگر مولانا ابوالاعلیٰ کا داماد اور ہمارا مشترکہ (مرحوم) دوست مسعود مسعود ثمرہ اللہ جانے کیوں اس سے ایف پاس کرنے کی بابت شرطیں لگاتا تھا اور جواب میں ناصر اس کے ساتھ وہی سلوک کرتا تھا جو ایسے موقع پر کرنا چاہئے! پھر ایک وقت آیا کہ میں ایم اے کر کے نوائے وقت میں کالم نگاری اور اس کے ساتھ ایم اے او کالج ہی میں بطور لیکچرار بھی کام کرنے لگا۔ ناصر اسلام آباد چلا گیا تھا کہ اس کے بیوی بچے وہیں تھے، وہاں میرے محبوب شاعر احمد فراز سے اس کی گاڑھی چھننے لگی، ان دونوں سے میری ملاقات اسلام آباد ہوٹل میں ہوتی، جب کبھی میں اسلام آباد جاتا۔  

یہ دونوں کچھ دوسرے دوستوں کے ساتھ وہاں آ جاتے، گپ شپ لگایا کرتے۔ ناصر اس وقت تک بطور شاعر اسٹیبلش ہو چکا تھا، چنانچہ مشاعروں میں اس سے ملاقاتیں اس کے علاوہ تھیں۔ تاہم مجھے یاد نہیں کہ ہم کبھی دورانِ ملاقات سنجیدہ رہے ہوں۔ پھر کچھ عرصے بعد ناصر دوبارہ لاہور منتقل ہو گیا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا تو ایک روز ایم اے او کالج میں میرے دفتر آیا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا شعری مجموعہ تھا۔ اور ہاں! میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ مجھے ’’مولوی‘‘ کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ سارا سال کسی بھی اخبار میں کسی مولوی کی کسی ’’نازیبا‘‘ حرکت کی کوئی خبر شائع ہوتی تو وہ اس کا تراشہ سنبھال لیتا اور پھر ایک روز مجھے ڈاک سے ایک بھاری بھرکم لفافہ موصول ہوتا جو مولویوں کی اس نوع کی کرتوتوں سے پھٹنے والا ہو چکا ہوتا۔ 

ہمارے درمیان اس نوع کا سلسلہ چلتا رہتا تھا، چنانچہ جب وہ مجھے اپنا شعری مجموعہ پیش کر رہا تھا مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا ’’مولوی! ایک ہفتے میں اس کا دوسرا ایڈیشن آ گیا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’واقعی، مگر پہلا کہاں گیا؟‘‘ اس بار ناراضی کے بجائے اس نے بھرپور قہقہہ لگایا۔ اس طرح شادی سے پہلے یہ حضرت ایک خاتون پر ریشہ خطمی ہو گئے اور اس پر ایک غزل کہی اور ’’ادب لطیف‘‘ میں (مرزا ادیب کی وفات کے بعد سے وہ اس کا ایڈیٹر بن چکا تھا) شائع کر دی غزل کے اوپر ’’ز۔ ب‘‘ کا نام بھی لکھا جو اس خاتون کے نام کا مخفف تھا۔ موصوفہ عمر میں اس سے بڑی تھیں۔ ناصر زیدی نے ادب لطیف کا وہ شمارا مجھے دیا اور غزل والا صفحہ نکال کر کہا ’’مولوی، پہلے یہ غزل پڑھ‘‘ میں نے غزل پڑھی، تعریف کی اور پھر کہا ’’یار پروف ریڈنگ تم خود کیا کرو، غزل پہ ’’ز۔ ب کے نام‘‘ لکھا ہے، حالانکہ یہ ب۔ ب (بیبے) کے نام ہونا چاہئے تھی۔ اس پر وہ سٹپٹا بھی گیا اور گالیاں بھی دیتا رہا!

ناصر ایک خوبصورت شخص تھا، آخری عمر تک خوبصورت رہا، اس کے سر کے سفید گھنے بال اس کی شخصیت میں مزید حسن پیدا کرتے تھے۔ وہ بہت غیرت مند شخص تھا۔ اس نے مالی بدحالی کے دور میں بھی کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے، وہ وزرائے اعظم کا اسپیچ رائٹر بھی تھا مگر مجھے علم ہے کہ یہ صرف خانہ پُری کا ایک پینل ہوتا ہے۔ اس نے اپنی روزی فری لانسر کے طور پر کمائی، ریڈیو، ٹی وی، اخبارات اس کا ذریعہ آمدن رہے اس نے روزنامہ پاکستان میں مجیب الرحمٰن شامی کی فرمائش پر ایک نہایت معلوماتی کالم شروع کیا۔ ہمارے اخبارات اور جرائد میں اساتذہ شعراء کے اشعار یا ان کے خالق کے نام غلط لکھ دیے جاتے ہیں۔ ناصر زیدی پوری تحقیق کے ساتھ اصل شعر اور اصل شاعر کا نام اپنے کالم میں درج کرتا اور یہ ایک بہت وقیع اور بہت مشکل کام تھا!

اور اب اس اتفاق کو میں کیا نام دوں کہ میں نے چار دن قبل برادرم عامر رضوی کو فون کیا اور کہا یار میں ایک عرصے سے ناصر زیدی کو فون کر رہا ہوں مگر کوئی اٹھاتا ہی نہیں، آپ مہربانی کر کے کسی طریقے سے اس سے میری بات کرا دیں، ایک گھنٹے کے بعد عامر نے مجھے ناصر کے بیٹے عدیل کا فون مہیا کر دیا، میں نے نمبر ملایا تو عدیل بیٹے نے اٹھایا۔ میں نے اسے کہا ابو سے میری بات کرائو، اب ناصر زیدی مجھ سے مخاطب تھا، زبان میں لکنت تھی، اسے فالج ہوا تھا اور اب پہلے سے بہت بہتر تھا، میں نے اسے ہنسانے کے لیے اس کے ’’المعروف‘‘ والے نام سے پکارا، مگر مجھ تک اس کی مسکراہٹ بھی نہیں پہنچی۔ بتانے لگا کہ میں گھر میں واکر سے چل پھر لیتا ہوں۔ یہ بھی اللہ کا شکر ہے۔ اس سے اگلے روز عدیل ناصر کا فون آیا ’’آپ کے دوست کی ڈیتھ ہو گئی ہے‘‘ اور پھر فون پر مجھے صرف اس کی ہچکیاں سنائی دیتی رہیں۔ مجھے یقین ہے اسے میری سسکیاں سنائی نہیں دی ہوں گی!

عطا ء الحق قاسمی

بشکریہ روزنامہ جنگ


Post a Comment

0 Comments