Urdu Classics

6/recent/ticker-posts

غزل کیسے لکھ لیتے ہو ؟

میں جب کالج میں پڑھتا تھا تو میں نے کالج کے میگزین کے لیے کچھ غزلیں لکھیں۔ انہیں پڑھنے کے بعد میرا ایک ہم جماعت دوست مجھے کالج کے ایک ویران گوشے میں لے گیا اور رازدارانہ انداز میں پوچھنے لگا۔ ’’سچ بتانا یار تم غزل کیسے لکھ لیتے ہو!‘‘ میں کہنے ہی والا تھا کہ پہلے کاغذ پر قافیے لکھ لیتا ہوں، جیسے گانے گئے، لانے گئے، کھانے گئے، نہانے گئے وغیرہ اور پھر ان پر شعر کا مضمون فٹ کر دیتا ہوں جس کا تعین دوسرے شعرا پہلے ہی کر چکے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ معشوق کی کمر نہیں ہوتی، رقیب کے چہرے کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، عاشق غم کھاتا ہے اور وقت گزاری کے لیے اخترشماری کرتا ہے، دنیا رہنے کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے اور واعظ کو گالیاں دینا اچھا کام ہے… اتنا سامان پاس ہو تو غزل گوئی کوئی ایسا مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ 

لیکن میرے ہم جماعت دوست نے جس طرح ویرانے میں لے جا کر مجھ سے سوال کیا تھا مجھے لگا کہ اس کے سوال کا اتنا سیدھا جواب کچھ موزوں نہیں لگے گا۔ سوال ایک پُراسرار انداز میں کیا گیا تھا۔ اس کا جواب اتنا سیدھا اورعام فہم نہیں ہونا چاہیے۔ آپ تو جانتے ہی ہوں گے کہ ایک ممتحن جب امتحان کے پرچے پر سوال پوچھتا ہے کہ اکبر نے پیدا ہوتے ہی اپنی ماں سے کیا کہا تھا تو جواب میں لکھنا کہ ’’اس وقت وہ بولنے کے قابل نہیں تھا، وہ فقط رو دیا تھا‘‘ غیر مناسب سمجھا جائے گا۔ ضرور کوئی پتے کی بات کہی ہو گی، ورنہ ممتحن پوچھتا ہی کیوں؟ اس بات کو ذہن میں رکھ کر میں نے سوچا کہ جواب دینے سے پہلے سوال کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے چنانچہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ پہلے اپنے سوال کا پس منظر واضح کرو۔ میرا دوست کہنے لگا کہ دیکھو ہر غزل میں عشق و محبت اور رازو نیاز کی باتیں ہوتی ہیں۔ 

ظاہر ہے یہ باتیں بغیر عشق کیے سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ جس نے عشق نہیں کیا وہ شاعری نہیں کر سکتا اور تم جب شاعری کر رہے ہو تو ظاہر ہے عشق بھی کر رہے ہو، اس لیے تم سے پوچھ رہا ہوں کہ کس سے کر رہے ہو۔ اچھا تو یہ بات تھی! اب مجھے محسوس ہوا کہ میرے دوست کا سوال کوئی آسان سوال نہیں ہے۔ اگر کہتا ہوں کہ عشق نہیں کر رہا تو شاعری جھوٹی اور اگر کہتا ہوں کہ کر رہا ہوں تو میں جھوٹا۔ ایک منٹ کے لیے میرے دماغ میں یہ دونوں جواب گتھم گتھا ہوتے رہے۔ آخر میں مَیں نے فیصلہ کیا کہ شاعری پر آنچ نہیں آنے دوں گا کیونکہ یہ صرف اکیلے میری عزت کا سوال نہیں تھا، پوری شاعر برادری کی عزت کا سوال تھا۔ 

میں نے چہرے پر مناسب کیفیت پیدا کی اور شرما کر کہا کہ ’’ہاں یار عشق کر رہا ہوں۔‘‘ اس نے پوچھا ’’کس سے؟‘‘ یہ سوال ذرا سا مشکل لگا چنانچہ میں نے ایک جہاں دیدہ منسٹر کی طرح جواب دیا کہ اس سوال کا جواب چونکہ کچھ دوسرے لوگوں کے لیے پیچیدگیاں پیدا کر دے گا اس لیے فی الحال اس سلسلے میں کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ ہاں یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں اس سوال کا جواب دوں گا۔

دلیپ سنگھ

Post a Comment

0 Comments